- فتوی نمبر: 7-189
- تاریخ: 06 جنوری 2015
- عنوانات: مالی معاملات > رہن و گروی
استفتاء
عرض ہے کہ میرے شوہر کا کئی سال پہلے انتقال ہوا تھا، انہوں نے میرے نام ایک گھر لے کر دیا تھا، شوہر کے انتقال کے بعد وہاں پر میں بالکل اکیلی رہ گئی تھی، میری ایک بیٹی بھی ہے، میں نے وہ گھر بیچ دیا کہ اس کے بدلے دوسرا گھر لے لو گی وہ گھر تو بک گیا، مگر دوسرا گھر نہ ملا، اس بات کو سات سال گذر گئے جب سے میں کبھی اپنی بہن کے گھر رہتی ہوں، تو کبھی اپنے بھائی کہ گھر، میرے اپنے گھر کا سامان بھی تھوڑا سا کسی کے گھر رکھا ہے اور تھوڑا سا کسی کے گھر۔ اب میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں اپنا گھر خرید سکوں اور نہ اتنی گنجائش ہے کہ کرائے کا لے سکوں، سوال یہ ہے کہ میرے لیے کوئی گنجائش نکلی ہے کہ میں ان پیسوں سے گروی کا گھر لے سکوں اور اگر نکلی ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہو گا، میں نہیں چاہتی کہ میں کوئی بھی کام سنت اور شریعت کے خلاف کروں برائے مہربانی میری رہنمائی کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گروی پر گھر لینے کا جو طریقہ آج کل رائج ہے وہ جائز نہیں، البتہ مجبوری کی حالت میں یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ آپ گھر والے کے ساتھ صرف زبانی یوں معاملہ کریں کہ جتنے پیسے آپ ان کو دے رہے ہیں اتنے میں وہ شخص وہ مکان آپ کو فروخت کر دے اور پھر علیحدہ سے آپ ان سے یہ وعدہ کر لیں کہ جب مکان چھوڑنا ہو گا تو اسی دی ہوئی رقم کے بدلے میں آپ ان کو یہ مکان فروخت کر دیں گے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved