- فتوی نمبر: 4-379
- تاریخ: 12 فروری 2012
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے نانا جی نے ایک مسجد اپنی زندگی میں تعمیر کروائی اور پھر اپنے مرض الوفات میں اپنی باقی ماندہ ساری جائیداد جو تقریباً 7 ایکڑ بنتی ہے وہ بھی اپنی اس مسجد کے لیے وقف کردی۔ جبکہ مرحوم کے ورثاء میں دو بیٹیاں موجود تھیں، سائل یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا اس بندہ کا یہ وقف کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں اور اگر وقف کرنا درست ہے تو کتنی جائیداد وقف کرسکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ شخص میں کینسر کے پھوڑے کی وجہ سے موت واقع ہونے کا ظن غالب ہے۔ یہ شخص شرعاً مریض ہے۔ لہذا اس کا تصرف کل مال کے 3/1 ( ثلث ) میں نافذ ہوگا۔ 3/1 یعنی ثلث سے زائد میں نافذ ہونے کے لیے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے۔
من غالب حاله الهلاك بمرض أو غيره بأن أضناه مرض عجزبه عن إقامة مصالحه خارج البيت لا يصح تبرعه الابن ( الثلث ) أي كوقفه و محاباته و تزوجه بأكثر من مهر المثل .(شامى: 5/ 9 )
(الوقف في مرض موته كهبته فيه ) من الثلث مع القبض ( فإن خرج ) الوقف ( من الثلث أو أجازه الوارث ) أي و إن لم يخرج من الثلث ( نفذ في الكل و إلا بطل ). در المختار: 4/ 397
مريض وقف داراً في مرض موته فهو جائز إذا كان يخرج من ثلث المال و إن كان لم يخرج فأجازت الورثة فكذلك و إن لم يجيزوا بطل فيما زاد على الثلث . (عالمگیری: 2/ 451 )
أما لو كان غير قادر عليه قبل المرض لكبر أو لعلة في رجليه فلا يظهر فينبغي اعتبار غلبة الهلاك في حقه … و ينبغي اعتماده لما علمت من أنه كان يفتي به الصدر الشهيد. (شامی: 5/ 6 )۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved