- فتوی نمبر: 18-367
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا ایسا کسی حدیث میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجذوم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہو؟
اگر ایسا ہے تو پھر ان احادیث کی کیا توجیہ کریں گے جن میں آپ علیہ السلام نے احتیاط برتی ہو یا اس کا حکم دیا ہو۔
جیسے ” فرّ من المجذوم كما تفر من الأسد” وغير ذالک۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مجذوم کو اپنے ساتھ بٹھا کر اسے کھانے میں شریک کرنا احادیث ثابت ہے اور جن احادیث میں یہ فرمایا ہے کہ فر من المجذوم كما تفر من الاسد (ترجمہ :مجذوم سے ایسے بھاگ جیسے شیر سے بھاگتا ہے) ان کی متعدد توجیہات کی گئی ہیں ایک توجیہ یہ ہے کہ مجذوم سے دور رہنا علاج معالجہ کے باب سے ہے اور علاج معالجہ فرض یا واجب نہیں اس لئے عدم وجوب کو بیان کرنے کے لیے مجذوم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا اور علاج کو بیان کرنے کے لیے فر من المجذوم كما تفر من الاسد ارشاد فرمایا۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ اسلام کی رو سے اسباب کی تاثیر ان کی ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالی کی رکھی ہوئی ہے اور اسباب اثر کرنے میں ہر آن ہر گھڑی اللہ تعالی کے محتاج ہیں لیکن اس کے باوجود اسباب اختیار کرنا جائز بلکہ بعض اوقات ضروری بھی ہیں اس لئے مجذوم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرکے اسباب کی ذاتی تاثیر کی نفی کی اور ’’فر من المجذوم كما تفر من الاسد ‘‘ ارشاد فرماکر اسباب کے استعمال کی طرف متوجہ فرمایا جیسا کہ کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے۔
بخاری (2/1621)میں ہے:
(رقم الحدیث 5:707)حدثنا سعيد بن ميناء ، قال : سمعت أبا هريرة يقول : قال رسول الله صلى
الله عليه وسلم : ” لا عدوى ولا طيرة ، ولا هامة ولا صفر ، وفر من المجذوم كما تفر من الأسد.(بخاري ،كتاب الطب ،باب الجذام).
ابوداؤد(2/547)میں ہے:
عن جابر ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد مجذوم فوضعها معه في القصعة وقال : "كل، ثقة بالله وتوكلا عليه(سنن ابی داود،کتاب الطب،باب فی الطیرة).
مرقاة المفاتيح( 8/396)میں ہے:
وقد اختلف العلماء في التأويل فمنهم من يقول المراد منه نفي ذلك وإبطاله على ما يدل عليه ظاهر الحديث والقرائن المسوقة على العدوى وهم الأكثرون ومنهم من يرى أنه لم يرد إبطالها فقد قال فر من المجذوم فرارك من الأسد وقال لا يوردن ذو عاهة على مصح وإنما أراد بذلك نفي ما كان يعتقده أصحاب الطبيعة فإنهم كانوا يرون العلل المعدية مؤثرة لا محالة فاعلمهم بقوله هذا إن ليس الأمر على ما يتوهمون بل هو متعلق بالمشيئة إن شاء كان وإن لم يشأ لم يكن ويشير إلى هذا المعنى قوله فمن أعدى الأول أي إن كنتم ترون أن السبب في ذلك العدوى لا غير فمن أعدى الأول وبين بقوله فر من المجذوم وبقوله لا يوردن ذو عاهة على مصح إن مداناة ذلك من أسباب العلة فليتقه اتقاءه من الجدار المائل والسفينة المعيوبة( دارالكتب العملية).
شرح المنہاج للنووی علی المسلم (13/191)میں ہے:
والصحيح الذي قاله الأكثرون ويتعين المصير إليه : أنه لا نسخ ، بل يجب الجمع بين الحديثين ، وحمل الأمر باجتنابه والفرار منه على الاستحباب والاحتياط لا للوجوب ، وأما الأكل معه ففعله لبيان الجواز ، والله أعلم( دارالكتب العملية).
© Copyright 2024, All Rights Reserved