• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسائل بہشتی زیور کے "باب موزوں پر مسح” کے ایک مسئلہ سے متعلق اشکال

استفتاء

السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ زمانہ طالب علمی میں ہمارے ہاں مدرسہ میں چند مسائل کی تحقیق کے لیے استفتاء آيا ہے جن میں ایک مسئلہ آپ کے بہشتی زیور کے موزوں پر مسح کرنے کے باب میں سے تھا جو ص: 53 پر درج ہے۔ وہ مسئلہ لف کیے پیپر میں سے دو نمبر مسئلہ ہے۔ جو نشان زدہ ہے۔ کافی سال پہلے سے اس غلطی پر تنبیہ کرنا چاہتا تھا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا۔

آپ کی ذکر کردہ عبارت سے یوں معلوم ہوتا  ہے کہ "اگر کسی نے موزے انقطاع عذر کی حالت میں بھی پہنے ہوں اور خروج وقت سے پہلے وہ عذر دوبارہ لاحق ہوگیا تو ایسے شخص کا خروج وقت سے وضو بھی ٹوٹ جائے گا اور مسح بھی باطل ہوجائے گا”۔ حالانکہ فقہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا لیکن مسح باطل نہ ہوگا اور مسح کی مدت پوری کی جائےگی۔ اس لیے کہ موزے طہارت کاملہ پر پہنے گئے تھے۔  دلائل بالتفصیل ساتھ والے ورق پر موجود ہیں۔

بندہ کو مندرجہ مسائل کی تحقیق بالدلائل مطلوب ہے۔

1۔ ایسے معذور نے پیشاب یا پاخانے کی وجہ سے وضو کیا اور جس وقت وضو کیا تھا اس وقت زخم یا نکسیر کا خون بند تھا۔ جب وضو کر چکا تب خون آیا تو اس خون کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ البتہ جو وضو زخم یا نکسیر کے خون کے سبب سے کیا ہے خاص وہ وضو نکسیر یا زخم کے خون کی وجہ سے نہیں ٹوٹا۔ ( مسائل بہشتی زیور: 23 )

2۔ معذور کی  دو حالتیں ہیں ایک یہ کہ جتنے عرصے میں اس نے وضو کیا ہے اور موزے پہنے ہیں اس تمام عرصے میں اس کا وہ مرض جس کے سبب سے وہ معذور ہوا ہے نہ پایا جائے۔ دوسری یہ کہ مرض مذکورہ تمام وقت مذکور میں یا اس کے کسی جز میں پایا جائے۔ پہلی صورت میں وقت صلوٰة نکلنے پر وضو ٹوٹے گا اور مسح کی مدت پوری کرے گا۔ دوسری صورت کا حکم یہ ہے کہ وقت کےنکل جانے سےجس طرح اس کا وضو ٹوٹے گا اس کا مسح بھی ٹوٹ جائے گا۔ اور اس کو موزے اتار کر پاؤں دھونے پڑیں گے۔ (ص: 53 )

3۔ نماز  میں اگر شک کی وجہ سے سجدہ سہو کیا تو نماز کے فساد کا حکم کس قدر ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ اس مسئلہ کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے:

في الدر المختار المعذور و إنما تبقى طهارته في الوقت بشرطين إذا توضأ لعذره و لم يطرأ عليه حدث آخر أما إذا توضأ لحدث آخر و عذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم طرأ عليه حدث آخربأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه و لو من جدري ثم سال الآخر فلا تبقى طهارته ( 1/ 308 )

2.یہ مسئلہ کچھ وضاحت طلب ہے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔

۱۔ موزے انتقاع عذر کی حالت میں پہلے اور خروج وقت تک وہ عذر پیش نہیں آیا۔

۲۔ موزے انقطاع عذر کی حالت میں پہنے لیکن خروج وقت سے پہلے عذر لاحق ہوگیا۔

3۔ موزے لحوق عذر کی حالت میں پہنے:

پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ خروج وقت سے پہلے مسح باطل نہ ہوگا اور مسح کی مدت پوری کرے گا اگرچہ بعد میں وہ عذر پیش آجائے۔ اور خروج وقت سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا لیکن اگر اس کے بعد پھر عذر لاحق ہوگیا تو وضو ٹوٹ جائےگا۔

دوسری صورت کا حکم یہ ہے کہ خروج وقت سے وہ مسح کی مدت پوری کر سکتا ہے لیکن وضو خروج وقت سے ٹوٹ جائے گا۔

تیسری صورت کا حکم یہ ہے کہ خروج وقت سے مسح اور وضو دونوں باطل ہوجائیں گے۔

في الدر المختار ( قوله: كمسألة مسح خفيه ) أي التي قدمها في باب المسح على الخفين بقوله أنه: أي المعذور يمسح في الوقت فقط إلا إذا توضأ و ليس على الانتطاع فكالصحيح. و قدمنا أنها رباعية لأنه أما إن توضأ و يلبس على الانقطاع أو يوجد الحدث مع الوضوء أو مع يلبس أو معهما فهو كالصحيح في الصورة الأولى فقط التي استثناها من المسح في الوقت وهي مرادة هنا فلما كان حكم هذه المسئلة معلوماً حيث صرح فيها بأنه كالصحيح أي أنه يمسح في الوقت و خارجه إلى انتهاء مدت المسح أراد أن يبين أن من توضأ على الانقطاع و دام إلى خروجه فهو كالصحيح أيضاً. فإذا خرج الوقت لا يبطل وضوءه ما لم يطرأ حدث آخر فتشبيه مسألة وضوء بمسألة المسح من حيث إن كلاً منها حكمه كالصحيح و إن كان حكمهما مختلفاً من حيث أنه في الأولى يبطل وضوءه بطرو الحدث بعد الوووقت ولا يبطل مسحه بذلك في مدة المسح بمعنى أنه لا يلزمه نزع الخف و الغسل بعد الوقت بخلاف الصورة الثالث من الرباعية. ( 1/ 306 )

     اس تفصيل سے معلوم ہوا کہ مسئلہ کی پہلی صورت میں وقت صلوٰة نکلنے سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ کوئی دوسرا حدث پیش نہ آئے ۔

و في البحر الرائق: أما إذا كان على الانقطاع و دام إلى خروج الوقت فلا يبطل بالخروج ما لم يحدث حدثاً آخراً أو يسيل دمها. (1/ 376 ) و في فتح القدير تحت قوله: ( و إذا خرج الوقت بطل وضوءهم ) هذا إذا توضؤا على السيلان أو وجد السيلان بعد الوضوء أما إن كان على الانقطاع و دام إلى خروج الوقت فلا يبطل بالخروج ما لم يحدث حدثاً آخر و يسيل دمها. ( 1/ 160 )

و في البدائع و لو توضأت و الدم منقطع و خرج الوقت و هي في خلال الصلوة قبل السيلان الدم ثم سال الدم توضأت و بنت لأن هذا حدث لاحق. و ليس بسابق لأن الطهارته كانت صحيحة لانعدام ما ينافيها وقت حصولها و قد حصل الحدث للحال مقتصراً موجب ارتفاع الطهارة من الأصل. ( 1/ 70 )

    و في الفتاوى الهندية و إنما تنقض طهارتها إذا توضأ إذا توضأت و الدم سائل أو سال بعد الوضوء في الوقت حتى لو توضأت و الدم منقطع ثم خرج الوقت و هي على وضوء لها أن تصلي بذلك ما لم يسل أو تحدث حدثاً آخر كذا في التبيين. (1/ 41 )

3۔ نماز ہوجاتی ہے لیکن اگر امام نے ایسا کیا کہ وجوب سجدہ سہو کے گمان پر سجدہ سہو کر لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سجدہ سہو واجب نہ تھا تو اس صورت میں مسبوق کی نماز میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک مسبوق پر اعادہ ہے جبکہ اس نے سجدہ سہو میں متابعت کی ہو اور بعض کے نزدیک اعادہ نہیں اور اعادہ واجب نہ ہونے پر فتویٰ ہے۔

  في الدر المختار و لو ظن الإمام  السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد. و في رد المحتار ( قوله فالأشبه الفساد ) و في الفيض و قيل لا يفسد و به يفتى و في البحر عن الظهيرية قال الفقيه أبو الليث في زماننا لا تفسد لأن الجهل في القراء غالب. ( 1/ 599 )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ اشکال مسائل بہشتی زیور کی عبارت کو درست نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں موجود ” وقت مذکور” میں سے مذکور کے لفظ پر غور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اشکال پیدا ہوا ہے۔ آپ نے یہ فرض کیا کہ یہ مسئلہ پورے وقت صلوٰة کا ہے، حالانکہ یہ مسئلہ صرف وقت وضو اور وقت لبس خفین کا ہے۔

اگر ان دو اوقات میں عذر بالاستیعاب موجود ہو یا ان میں سے کسی ایک میں بھی عذر موجود ہو تو ایسی صورت میں وہ طہارت کاملہ نہیں سمجھی جائیگی بلکہ ناقصہ ہوگی جو صرف وقت ( صلاة ) تک محدود رہے گی۔ اور اگر ان میں سے کسی ایک وقت میں بھی عذر نہ پایا گیا یعنی یہ دونوں اوقات عذر سے بالکلیہ خالی ہوئے تو ایسی صورت میں وہ طہارت کامل شمار ہوگی اور موزے بھی طہارت کاملہ پر پہنے ہوئے شمار کیے جائیں گے۔ اس لیے مسح صرف وقت تک محدود نہیں ہوگا بلکہ بعد از وقت بھی ہوسکے گا۔ چاہے وضو اور مسح کے فوراً ہی عذر پیش آگیا ہو۔

مذکورہ مسئلے کی فقہاء نے تسہیل کی خاطر درج ذیل چار صورتیں بنائی ہیں:

وضو کی حالت موزے پہننے کی حالت حکم
عذر منقطع عذر منقطع معذور صحیح کی طرح ہے، طہارت کامل ہے لہذا وقت کے اندر اور باہر مسح کرسکتا ہے
عذر موجود عذر موجود ان تینوں حالتوں میں طہارت ناقص ہے لہذا صرف وقت کے اندر مسح درست ہوگا بعد میں درست نہ ہوگا
عذر منقطع عذر موجود
عذر موجود عذر منقطع

اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق صرف پہلی صورت کامل طہارت کی ہے، جبکہ باقی تینوں ناقص کی ہیں۔ ان میں سے پہلی صورت کو مسائل بہشتی زیور میں معذور کی پہلی حالت سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ باقی تین حالتوں کو معذور کی دوسری حالت میں سمیٹ کر بیان کیا گیا ہے۔ شامی اور بحر کے باب المسح علی الخفین کی عبارت دیکھی جائیں ان میں بعینہ یہی تفصیل مذکورہے۔ اس کے بعد دوبارہ مسائل بہشتی زیور کی عبارت پر غور کیا جائے خاص طور سے لفظ  ” وقت مذکور” کو دھیان میں رکھا جائے تو امید ہے اشکال باقی نہیں رہے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved