• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسائل بہشتی زیور کے مسائل کے بارے میں چند گزارشات

استفتاء

مسائل بہشتی زیور کے مطالعہ کے دوران بندہ کو کچھ اشکالات پیش آئے جن کو ذیل میں ذکر کیا جاتاہے۔ضروری سمجھا کہ آنجناب سے ان کادرست مطلب دریافت کروں  (لأن صاحب البيت أدریٰ بما فيه).

1.ص:82ج1: اگران (جوچيزیں نجاست کو بالکل جذ ب نہیں کرتیں)پتلی نجاست لگی ہوتوخواہ برتن ہموارہو۔۔ہر مرتبہ دھوکراتنی دیر ٹھہرے کہ برتن وغیرہ سے پانی  ٹپکنابند ہوجائے ۔اھ

حالانکہ ایسی چیزوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو پاک کرنے کے لیے نجاست مرئیہ کو زائل کرنا اور غیر مرئیہ کو تین  بار دھونا شرط ہے تجفیف قطرات ضروری نہیں .قال فی الدر:

 (و) قدر (بتثليث جفاف) أی إنقطاع تقاطر (في غيره) أی  غير منعصر مما يتشرب النجاسة .اه

قال فی الرد: ففی الأول طهارته بزوال عين النجاسة المرئية أو بالعدد علی ما مر، وفی الثاني كذلك . (1/ 332)

نیز خود موصوف نے چند سطور بعدان اشیاء کی بابت جو قلیل  نجاست کو جذب کرتی ہیں لکھا ہے”اور اگر ان پر پتلی نجاست لگی ہو مثلاً پیشاب وغیرہ توصرف تین مرتبہ دھونا پڑے گاہر مرتبہ سکھانے کی ضرورت نہیں”۔اھ

حالانکہ ان اشیاء میں جو نجاست کو بالکل جذب نہیں کرتیں اوران اشیاء میں جو قلیل نجاست جذب کرتی ہیں طریقہ تطہیر میں فرق نہیں ہے جیساکہ علامہ شامی  نے اول وثانی کا ایک حکم بیان کیا ہے۔

ص:282 ج:1 س:17 :پرکفن میں عمامہ  کو مکروہ اور بدعت لکھاہے۔ جبکہ سنن سعید بن منصور  میں ہے(إن ابن عمر كفن إبنه واقداًفي خمسة اثواب قميص وعمامة وثلاث لفائف وأراد العمامة إلی تحت  حنكه .(بحوالہ رد المختار)

توجب ایک عمل صحابی سے ثابت ہو وہ بدعت کیسے ہوسکتاہے۔ بدعت تو وہ ہوتی ہے جس کا ثبوت قرون ثلاثہ میں نہ ہو ، چنانچہ مولانا شبیراحمد عثمانی لکھتے ہیں: بدعت  کہتے ہیں ایسا کام کرناجس کی اصل کتاب وسنت اور قرون مشہود لہا بالخیر میں نہ  ہو اور اس کو دین اور ثواب کاکام سمجھ کر کیا جائے۔(تفسیر عثمانی بحوالہ راہ سنت)

ولذاقال الشيخ ا لدنورؒ : اقول يجوز العمامة لأن ابن عمر كفن إبنه واقداً في عمامة (العرف الشذی مع الترمذی 1/ 194 ، فیض الباری 2/ 454 )

3۔ ص:396 ج:1 :عورت اگر مسجد میں اعتکاف کرے تو مکروہ تنزیہی ہے؛

فی زمانہ جب عورتوں  کے مسجد میں فرض نمازوں کے لیے جانے  میں فساد ہے جسکی وجہ سے فتویٰ عدم جواز کاد یا جاتاہے ۔ تو اعتکاف میں تو مفسدہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے تو صرف مکروہ تنزیہی کیوں؟

4۔ص326 ج 1 تنبیہ: کسی فقیر کو زکوٰة میں یا صدقہ واجبہ  کے طورپر استعمال  کی کوئی شے یا کھانے پینے کی کوئی چیز ملی۔

اس مسئل کی تحقیق مطلوب ہے جس پر کچھ کلام  گزشتہ دنوں فون پر بھی ہواتھا۔ یہ مسئلہ کتب فقہ  میں ہمیں نہ مل سکا۔

5۔ص 480 ج1  : پر نکاح فاسد اور وطی بالشبھہ سے واجب ہونے والے  مہر مثل کی یہ توضیح لکھی ہے.

"یہاں مہر مثل سے مراد وہ مہر ہے جو اور صفات سے قطع نظر کرکے محض عورت کی خوبصورتی کی بنا پر مقرر کیا جائے”

حالانکہ نکاح فاسد کا مہر مثل بھی وہی ہے جو نکاح صحیح کا  ہے موصوف نے جو تفیسر بیان کی ہے وہ صرف وطی بالشبھہ کے مہر مثل کی ہے۔إعلم أن اعتبار مهر المثل المذكور حكم كل نكاح صحيح لا تسمية فيه أصلاً أوسمي ماهو مجهول أومال يحل شرعاً وحكم كل نكاح فاسد بعدالوطء سمي فيه مهر أولا.

وأما المواضع التي يجب فيها المهر بسبب الوطء بشبهة فليس المراد بالمهر فيها مهرالمثل المذكور هنا۔(شامی3/  137   تحت مطلب فی بیان مہر المثل)

اغلاط کتابت              غلط                                                   صحیح

ص: 337 ج: 1  عشر نہیں  ——-                                   زکوٰة نہیں

ص:337 ج:1  زکوٰة واجب                —–                  عشر واجب

ص: 305 ج :1 مسجد العشاء——-                                  مسجد العشار

6۔اسلامی عقائد ص:130 پر موصوف نے حدیث ” لوكان موسیٰ و عيسیٰ حيين”  نقل کی اور اس کی تاویل ذکرکی ہے۔

تواس کے متعلق عرض  یہ  ہے کہ حدیث اصلاً ثابت ہی نہیں ، کسی حدیث کی کتاب میں نہیں  ہے کذاقال مولٰنا منظور احمد چينوٹي”خصم کو جواب دینے کے لیے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے   "ثبت العرش ثم انقش "

7۔ مروجہ مجالس ذکر ودرود کی شرعی حیثیت ص:31  پر موصوف  نے جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد مذکورہ درود شریف اجتماعاً پڑھنے کو  بدعت لکھا ہے، سواس میں تأمل ہے۔

اولاً اس لیے کہ موصوف نے اس کی ایک وجہ یہ ذکر کی  "کیونکہ اس میں زیادت فی الدین  ہے فرائض کے بعد جو اوراد و وظائف شریعت نے بتائے ہیں  ان میں درود شریف کا یہ وظیفہ  شامل نہیں  ”

اس سلسلے میں عر ض  یہ ہے کی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے فضائل درود شریف  ص 44 دوسری فصل حدیث نمبر 4 کے ذیل میں مذکورہ درود شریف کی  روایت ذکر کی  ہے۔تویہ وظیفہ حدیث سے ثابت ہے زیادت فی الدین کیسے ہوا ، علاوہ ازیں کسی بھی اوراد ومسائل کی کتاب میں وظائف کی استیعاب نہیں کیا گیا۔

ثانیاً موصوف نے  کہا  ہے ” کہ یہ وظیفہ  انفرادی اور غیر اجتماعی صورت میں کرنے کا ہے”

عرض  یہ ہے کہ جس طرح حدیث پاک میں نماز کے بعد  تینتیس ، تینتیس بار تسبیح وتحمید وتکبیر پڑھنے کا حکم ہے اورا مام و مقتدی سب جب اس پر عمل کرتے ہیں تواجتماعی صورت بغیر تداعی کے بن جاتی ہے  ایسے ہی زیر بحث درود شریف کا پڑھنا ہے ورنہ مروجہ طریقے پر تسبیح وتحمید وتکبیر کا اجتماعاً دعا سے پہلے پڑھنا بھی بدعت ہوا، کسی  بھی حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ تسبیح وغیرہ دعا کے بعدانفراداً پڑھا کرو۔ والسلام

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔آپ کی بات درست ہے۔ ہم نے مسئلہ کو بعینہ بہشتی زیور سے نقل کردیاتھا۔ آئندہ اس کی تصحیح کردی جائے گی  انشاء اللہ۔

2۔سنن سعید بن منصور کی روایت اگرچہ نقل کی جاتی ہے لیکن ایک تواس کے رجال کی تحقیق سامنے نہیں آئی۔ مولانا ظفر احمد تھانوی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ مجھے اس کی سند پر واقفیت نہیں   ہوئی۔ ہوسکتاہے کہ اب وہ کتاب چھپ گئی ہو اوراس کی سند مہیا ہو، بہر حال درایةً بھی وہ محل نظر ہے۔ ایک ایسا عمل جو نبی ﷺ  کے ساتھ نہیں ہوا ، صحابہ کے ساتھ نہیں ہوا ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہوا، حضرت  ابن عمر رضی اللہ عنہ کےبیٹے سالم  اور نافع کےساتھ نہیں ہوا ۔ اس کو کیسے ثابت مان لیاجائے۔ پھر فقہائے  متاخرین  نے اس کو مستحسن   کہا ہے  متقدمین  کی جانب سے استحسان نہیں  ملتا۔ اور سنت کے مقابلہ میں بدعت اس کو کہا جاتاہے  جو دلائل سے ثابت نہ ہو۔ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سے آپ نے   جواز کا قول  نقل کیا ہے لیکن  کیا اکابر علمائے دیوبند کا اس  پر عمل بھی ہے۔ کسی نے آخر عمل بھی کیاہے؟

3۔ہم نے نفس مسئلہ کے اعتبار سے ذکرکیا لیکن آپ کی بات صحیح  ہے کہ ہمیں موجودہ حالات کے اعتبار سے بھی بتانا چاہیے تھا۔انشاء اللہ آئندہ تصحیح کردی جائے گی۔

4۔فتاویٰ رشیدیہ ص 485 پر بھی  یہی مضمون ہے ۔ پوری تفصیل احسن الفتاویٰ ص 259 ج4 درج ہے۔

5۔آپ کی  بات ٹھیک ہے ۔ انشاء اللہ تصحیح کردیں گے۔

6۔ ہم نے یہ بات ،یا  د پڑتاہے کہ مولانا ادریس کاندہلوی رحمہ اللہ یا اورکسی  مشہود عالم کی کتاب سے نقل کی ہے ۔ بہر حال ہم آپ کے مشکور ہیں اس پر مزید تحقیق کریں گے۔

7۔اجتماعی طور سے پڑھنے کو بدعت کہا کہ یہ  (یعنی اجتماعاً پڑھنا فرض نماز کے بعد) زیادت فی الدین ہے۔

تسبیحات فاطمی اوراس میں فرق ہے۔ ان میں یہ التزام  نہیں کیا جاتاکہ سب تسبحات فاطمی پڑھیں  جو شخص جو چاہے پڑھے اگرچہ سب تسبیحات فاطمی ہی پڑھیں جبکہ درود شریف میں  اہتمام والتزام ہوتا ہے کہ سب اس کو پڑھیں کوئی مارے باندھے کا بیٹھا رہے تواور بات ہے۔

علاوہ ازیں عصر کے بعد اجتماعی صورت میں دعا کا عمل تواتر سے چلا آرہا ہے۔ اس درود شریف کے منقول ہونے کے باوجود اس پر اجتماعی عمل کو اختیارنہیں کیاگیا۔ یہاں تک کہ مولانا زکریا رحمہ اللہ  کی تندرستی کے زمانے میں ان سے  ایساکرنا منقول نہیں ۔  یہ بات بھی موجب غور ہے۔

نوٹ: آپ نے ہماری جن غلطیوں کی نشاندہی کی  ہے ان پر ہم آپ کے انتہائی مشکور ہیں ۔ مزید جو غلطیاں آپ کے علم میں ہوں وہ بھی اگر آپ ہمیں بتادیں تو ہم کتاب  میں اصلاح کے ساتھ ساتھ ایک اغلاط نامہ اور تصحیح  کو علیحدہ سے بھی شائع کرنے کا سوچ لیتے ہیں۔ جزاکم اللہ  عبدالواحد غفرلہ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved