• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مصلے کے نیچے دکانیں بناکر اس کی آمدنی مرکزی مسجد پر خرچ کرنا

  • فتوی نمبر: 13-382
  • تاریخ: 29 مارچ 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہمارے علاقہ رانا ٹاون کالاشاہ کاکو انٹرچینچ میں مین روڈ پر ڈھائی مرلہ کی ایک مسجد ہے جو ابتداء ایک کنویں کے کنارے مصلی کے طور پر بنائی گئی کہ جب کھیت میں کام کرنے والے نماز پڑھنا چاہیں تو کنویں سے و ضو کرکے نماز پڑھ لیں یا کوئی مسافر رک کر نماز پڑھ لے ۔جگہ مالکان کاارادہ صرف اس جگہ بطور مصلی قائم کرنے کا تھا باقاعدہ طور پر مسجد کے قیام کا نہیں تھا۔سوال یہ ہے کہ یہ مسجد ہے یا مصلی ہو گا۔

واضح رہے کہ اس مسجد ومصلی کا کبھی کوئی امام ومؤذن مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی مقامیوں نے وہاں باجماعت نماز پڑھی ، بس کبھی کوئی مسافر یا کسان نماز پڑھ لیتے تھے اب اس جگہ ایک رہائشی سوسائٹی بن گئی ہے سوسائٹی مالکان چاہتے ہیں کہ اس جگہ میں مزید ڈھائی مرلہ زمین کا اضافہ کرکے اس کے نیچے بیسمنٹ بناکر کسی کو کاروبار کے لیے کرایہ پر دے دیں جس کا کرایہ سوسائٹی کی مرکزی مسجد کے امام ومؤذن کے لیے وقف ہو اور اوپر چھوٹا سا مصلی بناکر ساتھ مدرسے کی عمارت بنادیں جہاں مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کرسکیں ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا سوسائٹی مالکان کا یہ طرز عمل شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو اس جگہ کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں ۔

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)            یہ مسجد یا مصلی کسی کی مملوکہ جگہ میں ہے یا سرکاری اراضی پر ہے یا شاملات ہے؟

(۲)           اس کے بنانے والوں نے اسے مسجد کے عنوان سے بنایا تھا یا نہیں؟

جواب وضاحت:

(۱)            یہ جگہ کسی کی مملوکہ تھی اسے پھر خرید کر سوسائٹی بنائی گئی۔

(۲)           بنانے والوں نے مصلی کاعنوان دیا تھا پھر رفتہ رفتہ لوگوں نے اسے مسجد کے عنوان سے مشہورکردیا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ جگہ چونکہ تاحال مسجد شرعی نہیںبنی بلکہ بطور مصلے کے استعمال ہوتی رہی ہے اس لیے اس کے نیچے بیسمنٹ بناکر اس کی آمدنی مرکزی مسجد پر خرچ کرنا جائز ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved