• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسبوق قعدہ اولیٰ میں شامل ہونے پر التحیات  مکمل پڑھے گا یا نہیں؟

استفتاء

احسن الفتاویٰ(3/376)میں ایک مسئلہ لکھا ہوا ہے جو درج ذیل ہے:

سوال: اگر کسی شخص کے بیٹھتے ہی امام قعدہ اولیٰ سے کھڑا ہوگیا اور یہ شخص التحیات نہ پڑھ سکا تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس صورت میں مسبوق تشہد پورا کر کے اٹھے،بدون تشہد پورا کیے امام کا اتباع مکروہ تحریمی ہے، مگر نماز ہو جائے گی  آخری قعدہ میں شریک ہونے والے کا بھی یہی حکم ہے، کہ اس کا تشہد پورا ہونے سے پہلے امام نے سلام پھیر دیا تو تشہد پورا کرکے کھڑا ہو۔

قال في الدر( بخلاف سلامه ) أو قيامه لثالثة ( قبل تمام المؤتم التشهد ) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه ولو لم يتم جاز  وفي الشامية قوله ( فإنه لا يتابعه إلخ ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير فحين قعد قام إمامه أو سلم ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث المختار عندي أن يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه ا هـ ولله الحمد قوله ( ولو لم يتم جاز ) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح(ردالمختار ج1 ص 462)

(۱)اب سوال یہ پوچھنا ہےکہ  مسبوق نے اگر تشہد چھوڑ کر امام کی اتباع کی تو یہ تو مکروہ تحریمی ہے لیکن کیا یہ نماز واجب الاعادہ بھی ہے یا نہیں؟

(۲)نیزاگرمسبوق تشہد پورا کرکےکھڑا ہو  تواس صورت میں  مسبوق کا امام کے ساتھ  قیام فوت ہوجائے گا تو اس صورت میں مسبوق کیا کرے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)ہماری تحقیق میں مذکورہ صورت میں بدوں تشہد پورا کئے امام کا اتباع کرنا اگرچہ مناسب نہیں لیکن اگر کرلیا تو یہ مکروہ تحریمی بھی نہیں اور جب مکروہ تحریمی نہیں تو  نماز واجب الاعادہ بھی نہیں۔

(۲)مذکورہ صورت میں مسبوق کے تشہد پورا کرکے کھڑا ہونے کی صورت میں قیام فوت نہ ہوگا کیونکہ یہ مسبوق اس قیام میں لاحق کے حکم میں ہے لہذا یہ مسبوق جب تشہد پورا کرلے تو قیام کرے اور درمیان میں چھوٹے ہوئے ارکان کو پورا کرکے اپنے امام کو جہاں پائے اس کے ساتھ شریک ہوجائے۔

رد المحتار (2/344)میں ہے

قوله ( فإنه لا يتابعه إلخ ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير فحين قعد قام إمامه أو سلم ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث المختار عندي أن يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه.

حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 209)میں ہے

 (وإن لم يتمه جاز ) لتعارض واجبين فمتخير بينهما وهذا هو المشهور في المذهب.

حاشیۃ الطحطاوی على الدر ( 1/220)ميں ہے

و لو تم جاز(درمختار) قوله: جاز،ای من غیر کراهة لانه قد تعارض واجبان فیخیر من غیر کراهةآه.

امدادالفتاوی(1/401)میں ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسبوق امام کے ساتھ قعدہ اولیٰ میں ملا۔ اور قبل اس کے کہ مسبوق تشہد ختم کرے امام اٹھ گیا تو مسبوق امام کی متابعت کرے یا تشہد ختم کرکے اٹھے۔ ؟

الجواب : اس صورت میں مسبوق تشہد ختم کرکے اٹھے بدون ختم کرنے تشہد کے نہ اٹھے۔

هكذا فی رد المحتار:عبارته هذا قوله لا یتابعه الخ أي ولو خاف إن تفوته الرکعة الثالثة مع الامام کما صرح به فی الظهیر ية وشمل بإطلاقه ما لو اقتدیٰ به فی اثناء التشهد الاول أو الاخیر فحین قعد قام إمامه أوسلم و مقتضاه أنه یتم التشهد ثم یقوم .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved