• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشکوک طریقے سے کمائی کا حکم

استفتاء

ایک بندہ ایسا کام کرتا رہا جو ناجائز تھا بعد میں اسے اس کا پتہ چلا اس نے توبہ کی ، اب وہ پیسے کیا جائز کاروبار میں لگا سکتا ہے؟ اور اس کاروبا سے پیسے کما کر اصل رقم کو بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کر دے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: کام کیا تھا؟ تفصیلات بتائی جائیں۔

جواب وضاحت:  میں ایک انجینئر ہوں، میرے والد کے مرنے کے بعد میں نے والدہ کی دیکھ بھال کی وجہ سے جاب چھوڑ دی اور میں عالمہ کے دوسرے سال میں ہوں  تو آفس جاب کرنا مشکل تھا مدرسے کے ساتھ، پھر میں آن لائن کام کرنا شروع کیا، میں مضامین لکھتی ہوں، پھر مجھے تعلیمی تحریری کام کے لیے ایک پیشکش مل گئی جس میں تنخواہ اچھی تھی اسے اکیڈیمک ورائٹنگ کہتے ہیں، کمپنی بیرون ملک طلباء یا کلائینٹ سے کام لیتی ہے، زیادہ تر طلباء اور کلائینٹ کے رپورٹوں پر  کام کرنا ہوتا ہے، ہم کسی تیسرے فریق کے طور پر کام کرتے ہیں، ہمیں عام طور پر پتہ نہیں ہوتا  کہ ہم طالب علم یا استاد کے لیے کام کررہے ہیں۔

میرا سوال یہ  ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی کمائی جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ یونیورسٹی  والے نہیں جانتے  کہ طلباء اپنی رپورٹ خود کررہے ہیں یا نہیں، تو کیا دھوکہ دہی میں تو نہیں آئے گا؟ لیکن آخر میں ہم اس کے کام کو تیسرے فریق کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میں الجھن میں ہوں، میری مدد فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: 1. جو کام آپ کرتے ہیں کیا سارے کام کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ غیر قانونی ہے؟

2.معاشی مجبوری کس  حد تک ہے؟ اگریہ پیسہ بالفرض براہ راست صدقہ کرنے کو کہا جائے تو کام  چل سکتا ہے؟ یا مشکل ہوگی اور مشکل ہوگی تو کس حد تک؟

جواب: 1. حضرات گرامی کام اس سوال میں بتا دیا گیا ہے مزید وضاحت سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کیا فرمانا چاہ رہے ہیں؟

2.یکمشت صدقہ کرنا مشکل ہے، شک والی بات ہے کہ اساتذہ کی طرف سے بھی کام مل سکتا ہے اور طلباء کی طرف سے بھی، ہمیں اس کا کچھ علم نہیں ہوتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چونکہ مذکورہ صورت میں یہ بات حتمی نہیں ہے کہ سائل کی طرف سے فراہم کردہ خدمات ناجائز تھیں، اس لیے گذشتہ کمائی صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ آئندہ احتیاط کی جائے۔  جہاں تک ممکن ہو اندازہ لگا لیا جائے  کہ خدمات حاصل کرنے والا شخص غیر قانونی تعاون تو حاصل نہیں کر رہا، جس کے بارے میں یقینی یا ظن غالب سے ایسا معلوم ہوجائے اس کا کام نہ کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved