- فتوی نمبر: 23-143
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
میں آپ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں وراثت کے بارے وضاحت چاہتا ہوں ۔تفصیل درج ذیل ہے:
(1)میرے پاس ایک عدد مکان چھ مرلے وراثتی جس میں میری دو بہنیں اور ایک بھائی بھی وارث ہے اس میں میرا چھوٹا بھائی اور میں خود رہائش پذیر ہوں ۔
(2)مکان کے ساتھ تین مرلے کا مکان جو کہ میرے نام ہے اس میں بھی ہماری رہائش ہے۔
(3)ایک عدد مکان پانچ مرلے جو کہ میرے نام ہے کرایہ پر دیا ہوا ہے۔
(4)ایک عدد مکان تین مرلے جو بیوی کے نام ہے جو کرایہ پر دیا ہوا ہے۔
(5)ایک عدد مکان تین مرلے جو بیوی کے نام ہے جو کرایہ پر دیا ہوا ہے۔
میں نے بیٹی کی شادی کردی ہے جب بیٹی بیرون ملک جانے لگی تو میں نے کہا کہ جو مکان تین مرلے کا ہے ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلہ پر ہے آپ کو دوں گا لیکن جب میں نے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ یہ ہبہ ہے وراثت مرنے کے بعد ہوتی ہے ۔
(۱)میں چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد بیٹی کے حصہ میں جو مکان وغیرہ آتے ہیں تمام جائیداد کی قیمت لگا کر اس حساب سے مکان دیا جائے اور اگر پیسے دینے پڑے تو اس کو ادا کر دیئے جائیں ۔
(۲)میں چاہتا ہوں کہ بیٹی مکان فروخت نہ کرے اور پاکستان میں بھی اس کا اپنا گھر ہو کیا میں یہ اختیار رکھتا ہوں کہ مکان فروخت کرنے سے منع کردوں؟برائے مہربانی وضاحت فرمادیجیئے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1,2)زندگی میں والدین اولاد کو جو کچھ دیں وہ ہدیہ ہوتا جس کی وجہ سے ان کا وراثتی حق ختم نہیں ہوتا لہذا مذکورہ صورت میں یا تو آپ اپنے دیگر ورثاء کو بھی اپنی زندگی میں ان کے حصوں کے بقدر ہدیہ کردیں اور یا بیٹی کو جو کچھ دیں وہ بطور قرض کے دیں یا صرف استعمال کے لئے دیں اس صورت میں آپ کی وفات کے بعد باہمی رضامندی سے بیٹی اس قرض یا مکان کو اپنے حصے کے طور پر رکھ سکتی ہے اور اس صورت میں آپ بیٹی کو مکان فروخت کرنے سے منع بھی کرسکتے ہیں۔تاہم ہدیے کی صورت میں فروخت کرنے سے منع کرنے کا حق آپ کو نہ ہوگا۔
ہندیہ(7/365)میں ہے:إذا وهب هبة وشرط فيها شرطا فاسدا فالهبة جائزة والشرط باطل كمن وهب لرجل أمة فاشترط عليه أن لا يبيعها أو شرط عليه أن يتخذها أم ولد أو أن يبيعها من فلان أو يردها عليه بعد شهر فالهبة جائزة وهذه الشروط كلها باطلة كذا في السراج الوهاج.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved