• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجدکاوقف تام ہونے سے پہلے اس میں تصرف کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے ایک مسجد کے لیے اپنی ذاتی جگہ وقف کی  ،جو جگہ وقف کی تھی اس کے ساتھ ہم نے اپنا گھر بنانے کے لیے بھی جگہ رکھی ہوئی تھی ۔ جو جگہ ہم نے گھر بنانے کے لیےرکھی تھی وہ فرنٹ پر تھی اور جو مسجد کے  لیے وقف کی تھی وہ پیچھے تھی ۔مسجد کی   بنیا دیں بھی ہم نے  رکھ دیں    اور ان بنیا دوں پر ایک لاکھ روپے خرچہ آیا ۔ اس کے بعد ہمارا یہ ذہن بنا کہ ہم مسجد کو فرنٹ پر لے  آئیں اور اپنے گھر کو پیچھے لے جائیں چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور جو مسجد کی  بنیا د میں اینٹیں وغیرہ استعمال  ہوئی تھیں وہ ہم  نے اپنے گھر کی تعمیر میں استعمال کرلیں اور یہ فیصلہ کرلیا کہ مسجد کی جو اینٹیں وغیرہ استعمال کی ہیں ان کا ایک لاکھ روپے ہم مسجد کوواپس کر دیں گے ۔اس  کے بعد مسجد کی تعمیر بھی مکمل  ہوگئی  لیکن ہم   یہ رقم مسجد کو واپس نہ کرسکے ۔ اب میں ہی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دے رہاہوں اور میر ی کوئی تنخواہ بھی  مقررنہیں ۔ مسجد کے سارے اخراجات ہم خود ہی کرتے ہیں  جو تھوڑا بہت چندہ ہوتاہے وہ بھی ہم بجلی کے بل وغیرہ میں لگا دیتے ہیں ۔متولی ہم خود ہیں  لیکن مسجد کی رجسڑیشن  کےلیے  سات افراد  پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے لیکن سب  کچھ ہم ہی   کرتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے  کہ جوایک لاکھ  کی مسجدکی  اینٹیں وغیرہ ہم نے    گھر کے لیے استعمال کی ہیں کیا وہ ایک لاکھ روپے مسجد کو واپس کرنا (جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مسجد کے اخراجا ت میں   وقتافوقتا  خرچ کردیئےجائیں) ہمارے  اوپر لازم ہے ؟ کیا میں امامت   کے فرئض کی ادائیگی کی تنخوہ اپنے لیے یہاں کے حساب  کے مطابق مقرر کرسکتاہوں   جبکہ کمیٹی کے سارے ارکان مجھے اس کی اجازت  دے رہے  ہیں ؟ نیز اگر ایک لاکھ روپےمسجد کو واپس کرنا ضروری ہے اور تنخواہ مقرر کرنا  جائز ہے تو ایسا ہو سکتا ہے  کہ میں ایک لاکھ  روپے کے بقدر تنخواہیں   مسجد کے فنڈ  میں سے نہ لو ں تاکہ مسجد کا قرض اتر جائے اس کے بعد لیتا رہوں ؟ برئے مہربانی رہنمائی فرمائیں

وضاحت مطلوب ہے : مسجد کو فرنٹ پر منتقل کرنے سے پہلے اس میں  اذان ،اقامت اور جماعت کے ساتھ  نماز پڑھی گئی تھی یانہیں  ؟

جواب وضاحت : نہیں۔

وضاحت مطلوب ہے : کیاآپ لوگوں نے  خود بھی وہاں نماز نہیں پڑھی  چاہے ایک  نماز ہی ہو ؟

جواب وضاحت :کسی نے بھی نماز نہیں پرھی ۔

وضاحت مطلوب ہے :مذکورہ جگہ مسجد  کے لیے وقف  کرتے وقت  کیاالفاظ استعمال کیے گئےتھے؟

جواب وضاحت :مسجد کے لیے جگہ دیتے وقت انہوں نے یہ کہاکہ یہ جگہ ہم نے مسجدکو دے دی ،یامسجد کے لیےچھوڑدی  ،یا مسجد کے نام کردی ۔

سائل :                (ثاقب  رشید)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ جگہ ذاتی ملکیت  تھی اور تعمیر ی اخراجات  بھی اپنی ذاتی گرہ سے کئے گئے تھے اور ابھی تک مسجد کے عنوان سے مختص کی گئی جگہ پر نماز اذان  بھی  نہیں   ہوئی  لہذا یہ  جگہ(امام محمدؒ کے نذدیک) ابھی  شرعی مسجد نہیں بنی تھی ۔اس لیے  جگہ تبدیل  کی جاسکتی ہے  ۔اور بنیادوں پر خرچ کی گئی رقم بھی واپس دینا ضروری نہیں ۔ تاہم چونکہ ایک  دفعہ مسجد کے عنوان سے رقم   خرچ  کرچکے ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ اتنے پیسے مسجد کودئیے جائیں ۔تنخواہ مقرر کر کے اس میں کٹوانے کی مجوزہ صورت  بھی درست ہے ۔

الدر المحتار(6/426) میں ہے:

( ويزول ملكه عن المسجد والمصلى ) بالفعل و ( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني (وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه ) بجماعة وقيل : يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية

( وقيل يكفي واحد ) لكن لو صلى الواقف وحده فالصحيح أنه لا يكفي لأن الصلاة إنما تشترط لأجل القبض للعامة وقبضه لنفسه لا يكفي فكذا صلاته  فتح وإسعاف

قا ل ابن عابدین: ( قوله : ويزول ملكه عن المسجد إلخ ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي عند محمد وفي منع الشيوع عند أبي يوسف ، وفي خروجه عن ملك الواقف عند الإمام وإن لم يحكم به حاكم كما في الدرر وغيره

( قوله : بجماعة ) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف ، وتسليم كل شيء بحسبه ، ففي المقبرة بدفن واحد وفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف ، واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد ، ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا قال الزيلعي : وهذه الرواية الصحيحة وقال في الفتح : ولو اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه وحده صار مسجدا بالاتفاق لأن الأداء على هذا الوجه كالجماعة ، قال في النهر : وإذ قد عرفت أن الصلاة فيه أقيمت مقام التسليم ، علمت أنه بالتسليم إلى المتولي يكون مسجدا دونها : أي دون الصلاة ، وهذا هو الأصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن بالتسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالى ، وكذا لو سلمه إلى القاضي أو نائبه كما في الإسعاف وقيل لا واختاره السرخسي .

شامی (6/418) میں ہے:

لكن نبه ان من شرط التسليم وهو محمد رحمه الله تعالي وهولم يصحح تولية الواقف نفسه۔

نہر الفائق (3/315) میں ہے :

ولو تولاه بنفسه ليس له ذالك عند محمد رحمه الله۔

.(رد المحتار(4/351)

قال الخصکفی: هذا بيان شرائطه الخاصة على قول محمد ، لأنه كالصدقة ، وجعله أبو يوسف كالإعتاق واختلف الترجيح ، والأخذ بقول الثاني أحوط وأسهل بحر وفي الدرر وصدر الشريعة وبه يفتى وأقره المصنف .

قال ابن عابدین تحت قوله:(هذابيان) واختاره المصنف تبعا لعامة المشايخ وعليه الفتوى وكثير من المشايخ أخذوا بقول أبي يوسف وقالوا : إن عليه الفتوى ولم يرجح أحد قول الإمام۔

( قوله : واختلف الترجيح ) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين ۔

(حاشيه الطحطاوي(2/535)

وقال الطحطاوي :قوله :قوله (والختلف الترجيح )أي والأفتاء أيضا كما في البحر ومقتضاه أن القاضي والمفتي يخيران في العمل بأيهما كان ومقتضي قولهم يعمل بأنفع للوقف  أن لايعدل عن قول الثاني لأن فيه ابقاءه بمجردالقول فلايجوزنقضه۔

لوقال سبلت هذه الدرفي وجه امام مسجد ۔۔۔تصير مسجدا ولوقال دري هذه مسبلة الي المسجد بعدموتي يصح ان خرجت من الثلث عين المسجد والا فلا (عالمگيري)سبل الشئ  مباح کرنا فی سبیل الله  دینا (القاموس الوحید)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved