• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وضوخانہ وغیرہ پر ڈالے گئے لینٹر کا کچھ حصہ مسجد کی حدود میں آگیا تو کیا اس حصہ پر بیت الخلاء وغیرہ بنانا جائز ہے مسجد کے فرش کے نیچے سے گندگی والا پائپ گزارنے کاحکم

استفتاء

1۔ میرٹھ شہر میں چند سال قبل ایک مسجد بنام**تعمیر کی گئی تھی جو کہ*** کی طرف منسوب ہے۔ مسجد سے متصل وضو خانہ، بیت الخلاء اور دو درسگاہیں ہیں۔ یہ تمام چیزیں مسجد سے خارج ہیں۔ اب وضو خانہ بیت الخلاء اور درسگاہوں کے اوپر تعمیر نو کا کام جاری ہے جو جماعت کے ٹھہرنے اور امام صاحب کی رہائش کے لیے کیا جارہا ہے۔ ان کے (وضوخانہ، غسل خانہ، بیت الخلاء اور درسگاہوں کے) اوپر جو لینٹر ڈالا گیا ہے اس کا چھجہ صحنِ مسجد میں ہے چھجہ پر بیت الخلاء، غسل خانہ، کچن بنانا کیسا ہے؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ چھجہ 3یا 4فٹ مسجد کے صحن کی طرف نکالا گیا  ہے۔

2۔ اسی طرح جو پائپ آرہا ہے وہ بھی مسجد کے صحن سے گزر رہا ہے جس سے پاخانہ، گندگی، غلاظت وغیرہ جائے گی، یہ جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جو جگہ ایک دفعہ شرعی مسجد بن جائے وہ جگہ زمین کی آخری تہہ سے لے کر آسمان کی بلندی تک مسجد ہی رہتی ہے اس میں مصالح مسجد کے علاوہ کوئی اور تصرف کرنا جائز نہیں ہوتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں لینٹر کا چھجہ چونکہ مسجد کی حدود کے اندر ہے لہذا اس پر بیت الخلاء، غسل خانہ یا کچن وغیرہ بنانا جائز نہیں۔

2۔ مسجد کے صحن سے مذکورہ پائپ گزارنا بھی جائز نہیں۔

در مختار مع رد المحتار (2/516 ) میں ہے:”(و) كره تحريماً (الوطء فوقه و البول و التغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء …. و إدخال نجاسة فيه.قوله: (إلى عنان السماء) بفتح العين، و كذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الأسبيجابي.“در مختار مع رد المحتار (6/549) میں ہے:”لو بنى فوقه بيتاً للإمام لا يضر لأنه من المصالح أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع و لو قال عنيت ذلك لم يصدق. تاترخانيه. فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه و لو على جدار المسجدقوله: (ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا اه. ط“امداد الاحکام (3/71) میں ہے:’’زمین وقف میں کوئی تصرف صرف اس کے مصالح کے لیے ہوسکتا ہے، دوسرے مصالح کے لحاظ سے تصرف نہیں کیا جاسکتا خواہ دوسرے مصالح خود مسلمانوں کے ہوں یا غیر مسلموں کے، اور بالخصوص مسجد میں تو کوئی تصرف صرف مصالح مسجد ہی کیلئے ہوسکتا ہے، اگر مسجد کے متعلق کوئی زمین وقف ہو تو اس کے مصالح سے بھی مسجد میں تصرف جائز نہیں، چنانچہ دیوارِ مسجد پر مکان خارج مسجد کی کھڑکی رکھنا جائز نہیں گو وہ مکان مسجد ہی کے لیے وقف ہو:وفي البحر من الوقف من فصل المسجد: ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وان كان من أوقافه اه. كذا في الفتاوى الحامديه. (ج1، ص182) واذا جعل تحته سردابا لمصالحه أي المسجد جاز كمسجد القدس أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع اه.پس صورتِ مسئولہ میں مسجد کے نیچے یا کسی اور وقف کے نیچے دوسرے مکانات کی غلیظ اور ناپاک پانی کے لیے بدررو [نالی] وغیرہ بنانا جائز نہیں۔۔۔الخ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved