• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے امام میں کیا کیا صفات ہونی چاہیے؟

استفتاء

مسجد کے پیش امام کو کن کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد کے پیش امام کو مندرجہ ذیل صفات کا حامل ہونا چاہیے۔1.  مسلمان ہو 2.  بالغ ہو 3.  عاقل ہو دیوانہ نہ ہو نشے میں نہ ہو 4.مرد ہو 5.  قرآن شریف صحیح تجوید کے ساتھ پڑھتا ہو 6.  تمام عذروں سے محفوظ ہو  جیسے نکسیر ،سلسل بول ، وغیرہ اور رکوع اور سجدے پر قادر ہو ، گونگا توتلا نہ ہو  اور نماز کی تمام شرائط پوری  کر رکھی ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ نماز کے ضروری مسائل سےواقف ہو ، حامل تقویٰ ہو، فواحشات سے اپنے آپ کو بچاتا ہو، خوش اخلاق ہو، شریف النسب ہو، باوقار اور وجیہ ہو۔

نوٹ: یہ صفات اعلیٰ معیار کے  مطابق ہیں، اگر ان صفات میں سے کسی صفت میں کمی ہو اور اس کے پیچھے کسی وجہ سے نماز پڑھ لی جائے تو نما ز بہر حال ہوجاتی ہے۔

سنن ابی داؤد (1/268) میں ہے:

عن أبي مسعود البدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله وأقدمهم قراءة فإن كانوا في القراءة سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء، فليؤمهم ‌أكبرهم ‌سنا ولا يؤم الرجل في بيته ولا في سلطانه ولا يجلس على تكرمته إلا بإذنه

مستدرک الحاکم(1/370) میں ہے:

عن عقبة بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌يؤم ‌القوم ……. فأفقههم في الدين، فإن كانوا في الدين سواء، فأقرؤهم للقرآن

امداد الفتاح شرح نور الایضاح (1/331) میں ہے:

وشروط صحة الامامة للرجال الاصحاء، ستة اشياء: الاسلام، والبلوغ، والعقل، والذكورة، والقراءة، والسلامة من الاعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ، وفقد شرط كطهارة وسترة عورة

الدر المختار(2/350) میں ہے:

والاحق بالامامة.اعلم بأحكام الصلاة فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، ثم الاحسن تلاوة وتجويدا للقراءة، ثم الاورع أي الاكثر اتقاء للشبهات.والتقوى: اتقاء المحرمات ثم الاسن ثم الاحسن خلقا ثم الاحسن وجها ثم الاشرف نسبا ثم الاكبر

فتاویٰ عثمانی (1/380) میں ہے:

ایک امام جو تمام نمازیں پڑھاتا ہو اس کے شرعی احکام کیا ہونے چاہیئں ؟کیا اس میں جسمانی اعضاء کا بھی لحاظ ہے     ؟مثلا جس شخص کا ہاتھ پیدائشی طورپر مفلوج ہو یا پیدائشی چھوٹا ہو اور تکبیر کے وقت ہاتھ کانوں تک نہ لے جاسکتا ہو کیا اس عذر کا شخص نماز پڑھانے کا اہل ہے ؟

جواب : سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ امام بارگاہ خداوندی میں مسلمانوں کی درخواست پیش کرنے کے لیے ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہے اس لیئے شریعت کی طرف سے اس کے کچھ اوصاف مقرر کئے گئےہیں تاکہ یہ نمائندہ مسلمانوں کی شایان شان ان کی نمائندگی کر سکے ان اوصاف میں بعض تو لازمی ہیں اور جس شخص میں یہ اوصاف نہ پائے جاتے ہوں اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور بعض اوصاف ایسے ہیں ان کے بغیر نماز ہو جاتی ہے مگر مکروہ رہتی ہے اور بعض اوصاف صرف مستحسن اور پسندیدہ ہیں ان کے بغیر نماز میں کوئی کراہت نہیں آتی مگر بہتر یہی ہے کہ امام اسی شخص کو بنایا جائے جس میں یہ اوصاف بھی موجود ہوں

1.لازمی اوصاف جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی مندرجہ ذیل ہیں :

1.امام مسلمان ہو بالغ ہو دیوانہ نہ ہو 2.نماز کا طریقہ جانتا ہو 3.نماز کی تمام شرائط اس نے پوری کر رکھی ہوں4.کسی ایسے مرض میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے اس کا وضو قائم نہ رہتا ہو۔ مثلا مسلسل نکسیر وغیرہ ایسے شخص کو فقہاء معذور کہتے ہیں ایسا شخص اپنے جیسے معذور کی تو امامت کر سکتا ہے مگر تندرست لوگوں کا امام نہیں بن سکتا 5.رکوع اور سجدے پر قادر ہو اگر کسی بیماری کی وجہ سے وہ رکوع اور سجدے پر قادر نہ ہو تو تندرست لوگوں کی امامت نہیں کر سکتا 6.گونگا توتلا ہکلا نہ ہو۔

2.اور دوسری قسم جن کے بغیر نماز مکروہ رہتی ہے مندرجہ ذیل ہیں:

1.صالح ہو یعنی کبیرہ گناہ میں مبتلا نہ ہو2.  فاسدالعقیدہ نہ ہو  3.نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو  4.قرآن کریم کی تلاوت صحیح طریقے سے کر سکتا ہو    5.کسی ایسے جسمانی عیب میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے                                                                                              اس کی پاکیزگی مشکوک ہو جائے یا لوگ اس سے گھن یا استخفاف کرتے ہوں اسی وجہ سے نابینا مفلوج ابرص وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے خلاف اولی قرار دیا ہے لیکن کراہت اسی وقت ہے جب اس سے بہتر امام مل سکتا ہواگر اس سے بہتر نہ مل سکے تو کوئی کراہت نہیں یہ تمام اوصاف تو قانونی انداز کے تھے ان کے علاوہ چونکہ امام مسجد اپنے محلے کا دینی مرکز اور ایک طرح سے مربی بھی ہوتا ہے اس لیئے بہتر یہ ہے کہ مندرجہ ذیل مزید اوصاف  اس  میں پائے جاتے ہوں ۔

حاضرین میں علم دین اور تلاوت قرآن کے اعتبار سے سب سے زیادہ بلند رتبہ ہو خوش اخلاق شریف النسب باوقار  اور وجیہ ہو صفائی ستھرائی تقوی اور طہات کا خیال رکھتا ہو مستغنی طبیعت رکھنے والا اور سیرِ چشم ہو اور محلے کی دینی تربیت کے لیئے جتنے اوصاف کی ضرورت ہو وہ اس میں پائے جاتے ہوں محلے کی مساجد میں امام کا انتخاب کرتے وقت ان اوصاف کی رعایت کر لی جائے تو محلے میں ایک نہایت خشگوار  دینی  ماحول پیدا ہو سکتا ہے مذکورہ بالا تشریح کے بعد  آپ کے تمام سوالات کا جواب خودبخود واضح ہوجاتا ہے جس شخص کے ہاتھ اتنے چھوٹے ہوں کہ وہ کانوں تک نہ پہنچے ہوں تو اگر اس میں کوئی عیب نہیں ہے تو اس کے پیچھے بلا کراہت نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved