• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لیے وقف شدہ زمین کو تبدیل کرنا

استفتاء

سائل عرض گزار ہے کہ زید نے6 مرلے کا پلاٹ مسجد کے لئے وقف کیا جس پر تاحال مسجد کے حوالے سے کوئی تعمیر نہیں ہوئی،اسی دوران  بکرنے 6مرلہ کے بالمقابل دس مرلے کا پلاٹ مسجد کے لیے وقف کرنے کا  ارادہ کیا بکر کے پلاٹ سے متصل بھی زید کی جگہ ہے اب وہ چاہتا ہے کہ میں پہلے سے وقف شدہ پلاٹ کے بجائے 10 مرلہ سے متصل اپنی جگہ میں سے چھ مرلے  شامل کر دوں تا کہ ایک ہی مسجد ہو اور کشادہ بھی ہو۔رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ تبدیلی شرعاً جائز ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1) کیا اس 6مرلہ  کے پلاٹ پر نماز باجماعت شروع کروا دی گئی ہے؟

2)کیا وہ پلاٹ کسی شخص کو متولی بنا کر اس کے حوالہ کر دیا گیا ہے؟

3)کیا اس پلاٹ پر نئی مسجد بنانے کے لیے وقف کیا گیا تھا یا کسی پہلے سے موجود مسجد کے لیے وقف کیا گیا تھا؟

جواب وضاحت:

1) اس 6مرلہ کے پلاٹ پر کبھی نماز باجماعت ادا  نہیں کی گئی۔

2) اس 6مرلہ کے پلاٹ پر کوئی متولی نہیں بنایا گیا۔

3)زید  اس 6مرلہ کے پلاٹ پرنئی مسجد بنانا چاہتا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمھما اللہ کے نزدیک مسجد کے لیےمحض زمین وقف کردینے سے وقف تام نہیں ہوتا  اور نہ ہی زمین مالک کی ملکیت سے نکلتی  ہے بلکہ مسجد کا وقف تام ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں باجماعت نماز ادا کرلی جائے۔مذکورہ صورت میں مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں نماز با جماعت نہ ہونے کی وجہ سے وقف تام نہیں ہوا اور زمین بدستور مالک کی ملکیت میں ہے لہذا مالک کے لیے اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔

فتاوی ہندیہ(4/218)میں ہے: من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به ۔۔وأما الصلاة فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى هكذا في البحر الرائق التسليم في المسجد أن تصلی فيه جماعة بإذنه وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة فيه بالجماعة بإذنه اثنان فصاعدا كما قال محمد رحمه الله تعالى والصحيح  رواية الحسن كذا في فتاوى قاضي خان.درمختارمع ردالمحتار(545/6)میں ہے: و ( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني ( وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه )بجماعة وقال ابن عابدین تحته: قوله ( بجماعة ) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحسبه ففي المقبرة بدفن واحدوفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا۔ قال الزيلعي و هذه الرواية هي الصحيحة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved