• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد کے لیے وصیت اور تین بھائی اور تین بہنوں میں وراثت کی تقسیم

استفتاء

ہماری ایک بڑی بہن تھی جو چند روز قبل فوت ہوگئی ہے ان کے بینک میں 80 لاکھ روپے موجود ہیں ان کے خاوند ان کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے ، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور بڑے بھائی کو انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے فوت ہونے کے بعد میری یہ رقم مسجد کو دیدی جائے وہ بھائی بھی جن کو وصیت کی گئی تھی ایک دن بعد فوت ہوگئے،  اس بھائی نے فوت ہونے سے 20 سال پہلے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تھی اور اس (بیوی) میں سے ان کی ایک بیٹی ہے، اب زندہ دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ شریعت کی روشنی میں اس رقم کی مکمل تقسیم سے آگاہ کردیا جائے۔

تنقیح: مرحومہ کے والدین مرحومہ سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک تہائی مال یعنی2666666.66 روپے تو  بطور وصیت مسجد میں  دیے جائیں گے  باقی اگر سارے ورثاء اجازت دیں تو سارا مال اور اگر کچھ ورثاء اپنے حصے کی اجازت دیں تو  ان کے حصے کے بقدر  مال وصیت  کے طور پر مسجد  میں دیا جائے گا اور جو  ورثاء اجازت نہ دیں تو باقی دو تہائی مال  یعنی( 5333333.32 روپے) میں سے ان کا حصہ مسجد میں نہ دیا جائے گا بلکہ ان ورثاء کے حوالے کیا جائے گا جس کی تفصیل یہ ہے کہ باقی دو تہائی مال  کے کل 63 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 16-16 حصے  (25.39 فیصد) یعنی1354497.35 روپے  ہر ایک زندہ بھائی کو، 8-8 حصے (12.69 فیصد) یعنی 677248.67روپے ہر ایک بہن کو اور 7 حصے (11.11 فیصد) یعنی        592592.59 روپے مرحوم بھائی کی بیٹی کو  ملیں گے۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

9×7=63

بھائیبھائیبھائیبہنبہنبہن
22×72×71×71×71×7
1414777

 

2×7=14                                 مافی الید:2x7=14

بیٹی2 بھائی3 بہنیں
2/1عصبہ
1×71×7
77
72+21+1+1

ہندیہ (10/4) میں ہے:

‌ثم ‌تصح ‌الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية … ……………. ‌ولو ‌أجاز ‌البعض ‌ورد البعض يجوز على المجيز بقدر حصته وبطل في حق غيره

مسائل بہشتی زیور (2/493) میں ہے:

……….. اور قرض کے سوا اور  چیزوں کی وصیت کا اختیار فقط تہائی مال میں ہوتا ہے ………تہائی مال سے زیادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں۔ البتہ  اگر سب وارث  بخوشی رضامند  ہوجائیں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ لیں گے اس کو بھی وصیت میں لگادو تو تہائی سے زیادہ بھی وصیت میں لگانا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved