• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کےمنجمدپیسے نکلوانے کے لیے رشوت دینا

استفتاء

گلبرگ بی بلاک لاہور میں واقع ایک مسجد  (بیت السلام)کی انتظامی کمیٹی 1956 سے مسجد اور اس کے ملحقہ ایک ڈسپنسری چلا رہی تھی۔ انتظامی کمیٹی کا ایک اکاؤنٹ نیشنل بینک آف پاکستان میں اور دوسرا حبیب بینک لمیٹڈ میں اُسی دور سے چلا آرہا ہے۔

انتظامیہ کے بزرگوار ایک ایک کر کے اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر انتظامی امور محلے کے دوسرے صاحبان کے ذمے آئے۔ اس 65 سال کے عرصے میں مسجد کے نمازیوں میں تقریبا تین گنا اضافہ ہوا خاص طور پر جمعہ کے روز۔ اضافی نمازیوں کی وجہ سے مسجد کی ملحقہ سڑکوں کو بند کرکے صفیں بنانا پڑتی ہیں جس کی وجہ سےنمازیوں کو دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر مسجد کی موجودہ انتظامیہ نے یہ مناسب سمجھا کہ مسجد کی توسیع کی جائے جس کے لیے نقشے بنوائے گئے اور اعلان کیا گیا کہ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی ضرورت ہے۔

لوگوں کی مدد سے تقریبا 60 سے 65 لاکھ روپیہ مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوا لیکن بینک نے یہ اکاؤنٹ منجمد کردیا کیونکہ حکومت کی طرف سے کچھ سختیاں کی گئی تھیں جس کی بنا پر ہر ایسوسی ایشن یا این جی او کو مطلع کیا گیا کہ اپنی ایسوسی ایشن کا اصل رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ بینک کو پیش کیا جائے بصورت دیگر بینک اکاؤنٹ منجمد رہے گا۔

بینک کو یہ باور کرایا گیا کہ کمیٹی کے تمام بزرگان جنہوں نے انتظامی کمیٹی کا اکاؤنٹ کھولا تھا وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ایسا سرٹیفیکیٹ نہیں ہے جو ہم بینک کو پیش کریں۔

اس کے باوجود بینک کی طرف سے یہ اصرار کیا گیا کہ وہ مجبور ہیں اور ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتے جب تک ہم ان کو یہ سرٹیفکیٹ لا کر نہ دیں۔

اس سلسلے میں مسجد کی انتظامیہ نے سر توڑ کوشش کی لیکن مذکورہ سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر پائے جبکہ بینک بضد تھا کہ چاہے نئی رجسٹریشن کروا لی جائے مگر ان کو ہر صورت میں سرٹیفکیٹ چاہیے۔

نیا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ لینے کے لئے انتظامیہ نےسرکاری محکمہ سے ایک وکیل کے ذریعے رابطہ کیا اور کافی تگ و دو کے بعد کچھ امید کی کرن نظر آنے لگی لیکن ساتھ ساتھ وکیل صاحب نے یہ بھی بتایا کہ محکمہ کے کلرکوں اور دیگر افراد کو کچھ پیسے دینے پڑیں گے ورنہ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں مل سکے گا۔ وکیل صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آپ اس کو جگا ٹیکس کہہ سکتے ہیں۔

جب یہ سارا معاملہ مسجد کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کے لئے فتوی لیا جائے کہ آیا مسجد کی تعمیر کے لئے جمع کی گئی رقم بینک سے واپس لینے کے لیےمذکورہ محکمے کے افراد کو جو رقم رشوت کے طور پر مجبورا دینا پڑ رہی ہے، اسلام اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ بصورت دیگر مسجد کی انتظامیہ انتہائی مخمصے کا شکار ہے کہ جن لوگوں نے مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کروایا ہے ان کو ہم کیا جواب دیں گے؟ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اس صورتحال میں کیا کِیا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کے پیسوں کو حاصل کرنے کے لیے رشوت دیے بغیر اگر کوئی چارہ کار ممکن نہیں توآپ رشوت دے سکتے ہیں،اس کا گناہ آپ کو نہ ہوگا بلکہ لینے والوں کو ہوگا

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved