• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے پیسے چوری ہونے کی صورت میں ضمان

استفتاء

مؤدبانہ گزارش ہے کہ مسجد کے خزانچی نے  9سال پہلے کہا کہ مسجد کے گلے کی چابیاں کسی دوسرے کے پاس بھی ہیں جو گلے سے پیسے نکالتا رہتاہے ،کیونکہ میں نے رات کو  30ہزار روپے بجلی کے بل کے لیے رکھے تھے ۔صبح وہ گلے میں نہیں تھے ۔انتظامیہ کو بھی بتادیا گیا کسی نے توجہ نہ کی ، 9سال بعد پھر واضح طور پر تصدیق ہوگئی  کہ کسی دوسرے کے پاس بھی چابیاں ہیں ۔تصدیق اس طرح ہوئی کہ انتظامیہ کے صدرنے گلے میں پیسے ڈالے تو دوسرے دن گلے میں وہ پیسے نہیں تھے۔اس واقعے پر انتظامیہ کے افراد بھی گواہ ہیں اور موجود ہیں ۔نمازی حضرات کا کہنا ہے کہ9سال میں جتنا مالی نقصان ہواہے مسجد کے ذمہ دار لوگوں سے ہی وصول کیا جائےکہ جب ان کے علم میں بات آئی تونہ انہوں نے گلے بدلے اورنہ ہی تالے بدلے مہربانی فرماکر قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت فرمادیں ۔

وضاحت مطلوب ہے :سوال میں مذکور تمام صورتوں کے بارے میں انتظامیہ کا تحریری موقف مع دستخط فراہم کر دیں۔

جواب وضاحت :انتظامیہ کا تحریری موقف درج ذیل ہے :

” جناب مفتی صاحب مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ نے مذکورہ تمام مسائل میں انتظامیہ کے ارکان کے موقف کو طلب کیا ہے ۔انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں انتظامیہ کےصدر اور نائب صدرسمیت تمام ارکان نے شرکت کی ۔جس میں مذکورہ تمام مسائل میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان تمام مسائل میں مفتیان کرام سے رجوع کیا جا ئے اور جتنے مسائل اور واقعات لکھے گئے ہیں وہ سب کی مشاورت سے طے ہوئے اور یہ سارے حقیقت پر مبنی ہیں اور انتظامیہ کے تمام ارکان نے اس کی تصدیق کی ہے ۔اور میں مسجد کا سرپرست اس  وقت موجود تھا  اور میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چندے کا حکم امانت کا ہے اور جس شخص کے پاس امانت رکھی جائے اس پر امانت کی حفاظت واجب ہے،جس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی اگر اس شخص کی طرف سے غفلت پائی جائے تو اس امانت کے ضائع ہونے کی صورت میں وہ شخص ضامن ہوگا۔ چونکہ مذکورہ صورت میں انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے چندے کی رقم چوری ہوئی ہے لہٰذا  9سال کے عرصہ میں جتنا مالی نقصان ہوا انتظامیہ اس کی ضامن ہوگی ۔ لہٰذا انتظامیہ کے ذمہ لازم ہے کہ9سال کے عرصے میں جتنا مالی نقصان ہواہے اس کا محتاط تخمینہ لگاکر اس مسجد میں ادا کریں ۔

فتاوی عالمگیری (241/7)میں ہے :وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه كذا في الشمني الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن وإن فعل شيئا منها ضمنفتاوی شامی (543/8)میں ہے :لو قال وضعتها بين يدي وقمت ونسيتها فضاعت يضمن ولو قال وضعتها بين يدي في دار والمسألة بحالها إن مما لا يحفظ في عرصة الدار كصرة النقدين ضمن ولو كانت مما يعد عرصتها حصنا له لا يضمن . امداد الاحکام(628/3)میں ہے :"سوال :کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید عمرو کے پاس امانت رکھا کرتا تھا………. عمرو نے (امانت والی) تھیلی اس جگہ رکھی جہاں سے نوٹ چوہے لے جاسکتے تھے اور عمرو کے ملازم بھی وہاں آتے جاتے تھے،دس بارہ روز کے بعد عمرو کے لڑکے کی نظر اس تھیلی پر پڑی اور یہ دیکھا کہ تھیلی باندھی ہوئی نہیں ہے بلکہ کھلی ہوئی ہے ۔تھیلی کو غیرمحفوظ حالت میں دیکھ کر اس نے تھیلی کو اٹھایا تو اس میں صرف پانچ روپے تھے ،بعد میں عمرو کے لڑکے نے عمرو سے کہا کہ تھیلی میں صرف پانچ روپے ہیں ،جس پر عمرو نے زید سے دریافت کیا زید نے کہا کہ مجھے بخوبی یاد ہے کہ دو نوٹ سو سو کے اور پانچ روپیہ تمہارے پاس چھوڑگیا ہوں……………صورت مذکورہ بالامیں دو سو روپیہ عمرو کے ذمہ عائد ہوتا ہے یا نہیں؟

جواب صورت مسئولہ میں عمرو کی قلت احتیاط ظاہر ہے ۔پس اگر عمرو اپنی قلت احتیاط کا اقرار کرے،یعنی اس کو قبول کرے کہ میں نے تھیلی ایسی جگہ رکھی تھی جہاں سے چوہے نوٹ لے جا سکتے تھے ،اور عمروکے ملازم بھی وہاں آتے جاتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرے کہ میرے پاس دو سو پانچ روپے رہ گئے تھے تو اس کے ذمہ ضمان  واجب ہے اور اگر وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انکار کرے ،تو عمرو کے ذمہ قسم ہے ،اگر وہ قسم کھائے تو اس کے ذمہ ضمان نہیں ،اور یہ قسم مجلس ِحکم میں ہونی چاہیے "   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved