• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجدمیں  بیٹھے لوگوں کو  سلام کرنا چاہیے یا نہیں؟

استفتاء

مسجد میں  جب کوئی آئے تو وہاں بیٹھے لوگوں کو سلام کرنا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسجد میں بیٹھےلوگ چونکہ ذکر تلاوت وغیرہ عبادات میں مشغول ہوتے ہیں اور ان کو سلام کرنے سے اس عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے لہذا ان لوگوں کوسلام کرنا منع ہے۔ البتہ اگر کچھ خاص لوگ ہوں اور ان کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ ذکر و عبادت وغیرہ میں مشغول نہیں تو خاص انہی کو اتنی اونچی آواز سےسلام کر سکتے ہیں کہ دوسروں کی عبادت وغیرہ میں خلل نہ آئے۔   چنانچہ حدیث میں آتا ہے:

سنن أبى داود (2/ 362) میں ہے:

عن أبى سعيد الخدرى قال جلست فى عصابة من ضعفاء المهاجرين وإن بعضهم ليستتر ببعض من العرى وقارئ يقرأ علينا إذ جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام علينا فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم سكت القارئ فسلم۔

ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ضعیف مہاجرین میں بیٹھا ہواتھا وہ (پورے کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے)بعض بعض کی آڑ میں  پردہ کررہے تھے، اور ایک قار ی ہمارے سامنےتلاوت فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے جب آپﷺ کھڑے ہوئے توتلاوت کرنے والے خاموش ہوگئے تو آپ ﷺ نےسلام کیا۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:

قوله: (فسلم) أي: رسول الله صلى الله عليه وسلم، والفاء جواب شرط محذوف، أي:فلما سكت سلم، فيفهم منه أن السلام على قارئ القرآن مكروه، فافهم.

ترجمہ:جب قاری خاموش ہوا تب آپ ﷺ نے سلام کیا تو اس سے یہ سمجھ میں آتا ہےکہ قرآن کی تلاوت کرنے والے کوسلام کرنا مکروہ ہے ۔

صحيح البخاری (2/ 66) میں ہے:

عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة له فانطلقت ثم رجعت وقد قضيتها فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه فلم يرد علي ۔۔۔۔۔ ثم سلمت عليه فرد علي فقال إنما منعني أن أرد عليك أني كنت أصلي

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے  فرمایا کہ آپ ﷺ نے مجھے کسی کام سے بھیجا ،میں گیا  اوروہ کام کر کےواپس آگیا تو میں آپ ﷺ کے پاس  آیا اور سلام کیا تو آپ ﷺ نے مجھے جواب نہ دیا ۔۔ ۔ میں نے پھر سلام کیا  تو جواب دے کر فرمایا مجھےسلام کا جواب دینے سے صرف اس بات نے روکا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔

اس کی تشریح میں علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں :

(فرد علي) أي بعدأن فرغ من صلاته قوله(ما منعني) أن أرد عليك أي السلام إلا أني كنت أصلي۔۔۔۔وفيه كراهة السلام على المصلي.

(جب نماز سے فارغ ہوئے تو سلام کا جواب دیکر فرمایا) مجھے سلام کا جواب دینے سے نہیں روکا سوائے اس کے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اس میں اشارہ ہے کہ نماز ی  کوسلام کرنا مکروہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved