- فتوی نمبر: 6-279
- تاریخ: 21 فروری 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > متفرقات خاندانی معاملات
استفتاء
1۔ میرا پہلا سوال "السلام علیکم” کے بارے میں ہے اور خاص طور پر مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد میں، مسجد کے لان میں اور مسجد کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے بلند آواز سے "السلام علیکم” کہنا جبکہ مسجد میں نمازی حضرات نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے اپنے اپنے ذکر و اذکار یا تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوتے ہیں۔ سلام کرنے والے کو جواب دینا چاہیے یا خاموش رہنا چاہیے؟ اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بحوالہ قرآن و سنت تحریر فرمائیں۔
مزید مسجد میں نماز کے لیے بیٹھے ہوئے حضرات اپنے اپنے ذکر و اذکار میں مشغول ہوتے ہیں، دوسرا نمازی جبکہ ان کے ساتھ آ کر بیٹھتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ فوراً مصافحہ کے لیے بڑھاتا ہے بلکہ مصافحہ کرنے کے لیے کبھ اس کے کندھے اور کبھی اس کے بازو کو بھی ٹھونک کر سلام و مصافحہ کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جو شخص مسجد میں ذکر و تلاوت میں مشغول ہو اس کو سلام کرنا اور اس سے مصافحہ کرنا جائز نہیں اور جو سلام کرے اس کو سلام کا جواب دینا بھی ضروری نہیں ہے، کیونکہ مسجد میں آنا نماز و ذکر کے لیے ہوتا ہے لوگوں سے ملنے ملانے کے لیے نہیں۔
السلام تحية الزائرين و الذين جلسوا في المسجد للقراءة و التسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم و لهذا قالوا لو سلم عليهم وسعهم أن لا يجيبوه. (هندية: 5/ 325)
ان كل محل لا يشرع فيه السلام لا يجب ردّه. (رد المحتار: 1/ 618)
© Copyright 2024, All Rights Reserved