- فتوی نمبر: 9-128
- تاریخ: 03 اگست 2016
- عنوانات: عبادات > نماز > مکروہات نماز کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں نماز باجماعت ادا ہو رہی تھی کہ مسجد کے برآمدے میں صفیں نہیں بچھی تھیں کہ بعد میں آنے والے نمازیوں نے برآمدے کو چھوڑ کر مسجد کے صحن میں نماز ادا کی، جبکہ برآمدے میں دوصفوں سے زائد جگہ ہے۔ آیا کہ ایسی صورت میں جن لوگوں نے مسجد کے صحن میں نماز ادا کی ہے، ان کی اقتداء صحیح ہوئی کہ نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے مسجد کا برآمدہ چھوڑ کر مسجد کے صحن میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہے ان کی اقتداء تو صحیح ہے کیونکہ مسجد کا صحن بھی مسجد ہی کا حصہ ہے اور مسجد ساری کی ساری مقام واحد کے حکم میں ہے۔ البتہ درمیان میں دو صفوں کا
خلا چھوڑنے کی وجہ سے ان کی نماز مکروہ ہوئی ہے۔ لہذا ان کو اپنے فعل پر توبہ و استغفار بھی کرنا چاہیے۔
فتاویٰ شامی (2/ 403) میں ہے:
و لم يختلف المكان حقيقة كمسجد و بيت في الأصح … قال الشامي تحت قوله (كمسجد و بيت) فإن المسجد مكان واحد و لذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيراً جداً.
فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ(2/ 408) میں ہے:
و ذكر في البحر عن المجبتى أن فناء المسجد له حكم المسجد ثم قال و به علم أن الأقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح و إن لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد.
فتاویٰ تاتارخانیہ (2/ 267) میں ہے:
و في فتاوى الشيخ الإمام أبي الليث: إمام صلى بالناس في المسجد الجامع في غير يوم الجمعة فقام صف خلف الإمام عند المقصورة و قام صف آخر في آخر المسجد تكلموا فيه منهم من قال يجوز و منهم من قال لا يجوز قال الصدر الشهيد الأعدل من الأقاويل أن الإمام إذا كان في المقصورة و القوم في ”سراےخاصه“ يجوز و كذلك إذا كان الإمام في مسجد الأنبار و القوم في ”سراےخاصه“ يجوز.
فتاویٰ عالمگیری (1/ 88) میں ہے:
و لو اقتدى بالإمام في أقصى المسجد و الإمام في المحراب فإنه يجوز كذا في شرح الطحاوي.
فتاویٰ شامی (9/ 128) میں ہے:
و صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكاناً كره كقيامه في صف خلف صف فيه فرجة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved