• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد میں جماعت ثانیہ کا حکم

  • فتوی نمبر: 21-339
  • تاریخ: 11 مئی 2024
  • عنوانات:

استفتاء

ایک مسجد جس میں باقاعدہ طور پر باجماعت نماز ہوتی ہو اگر کوئی جماعت سے پیچھے رہ جائیں کیا وہ دوبارہ باجماعت نماز ادا کرسکتے ہیں ?رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

درج ذیل شرائط میں سے اگر کوئی شرط پائی جائے تو جماعت ثانیہ مکروہ ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں:

1۔مسجد محلے کی ہو اور عام رہ گزر پر نہ ہو ۔

2۔پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کہہ کر پڑھی ہو۔

3۔پہلی جماعت ان لوگو ں نے پڑھی ہو جو اس محلہ میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔

4۔دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت واہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے ۔یہ چوتھی شرط صرف امام ابویوسف ؒ کے نزدیک ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہیت رہتی ہے۔

لہذا اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے مثلا مسجد محلے کی نہ ہو (یعنی محلے میں ہونے کے باوجود اس کا امام اور نمازی متعین نہ ہوں بلکہ لوگ اپنی اپنی نماز پڑھتے ہوں یا چھوٹی چھوٹی جماعتیں کرواتے ہوں)یا مسجد عام راہ گزر پر ہو یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کہہ کر نہ پڑھی گئی ہو یا پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلے میں نہ رہتےہوں توبالاتفاق جماعت ثانیہ جائز ہےاور اگر دوسری جماعت اس ہیئت سے نہ ادا کی جائے جس ہیئت سے پہلی جماعت ادا کی گئی تھی(مثلا جس جگہ پہلی جماعت کا امام کھڑا تھا دوسری جماعت کا امام وہاں سے ہٹ کر کھڑا ہو )تو امام ابویوسفؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ جائز ہے جبکہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس صورت میں بھی مکروہ ہے اور اکثر اکابرین کا فتویٰ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر ہے ۔

امدادالاحکام جلد 1 صفحہ 497 میں ہے:

سوال: ہمارے اطراف میں اکثر جماعت کے ساتھ نماز پنج وقتی بعض جگہوں میں پڑھی جاتی ہے،اور بلا تنخواہ کے امام بھی امامت کے لئے نامزد رہتے ہیں ، گو مؤذن کئی ایک ہوا کرتے ہیں ،تو آیا جماعت اولیٰ کے بعد ایسی جگہوں میں جماعت ثانیہ حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے،تحریمی یا صرف مکروہ یا کچھ بھی نہیں ؟

الجواب:قال في الشامية يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة باذان واقامة الا اذا صلى بهما فيه اولا غير اهله او اهله لكن بمخافتة الاذان ولو كرر اهله بدونها او كان مسجد طريق جاز اجماعا كما في مسجد ليس له امام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا فان الافضل ان يصلي كل فريق باذان واقامة علحدة كما في امالي قاضي خان .وقدمنا في باب الاذان عن اخر شرح المنية عن ابي يوسف انه اذا لم تكن الجماعة علي الهيئة الاولى لا تكره والا تكره وهو الصحيح وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية انتهى وفي التاتارخانية عن الولوالجية وبه نأخذ ۱ھ

ان عبارات سے معلوم ہوا کہ بصورت مذکورہ مسجد محلہ میں جس میں امام ومؤذن مقرر ہیں جماعت ثانیہ مکروہ ہے مگر بتغییر ہیئت امام ابویوسفؒ کے قول پر گنجائش ہے، لیکن ہمارے مشائخ نے انتظام عوام کے لئے اس پر فتویٰ نہیں دیا بلکہ مسجد محلہ میں جہاں امام ومؤذن مقرر ہوں مطلقا کراہت کا فتویٰ دیا ہے۔

امداد الاحکام (جلد 1 صفحہ541) میں ہے:

سوال :جماعت ثانیہ جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب : محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ ہے۔

مسائل بہشتی زیور جلد 1 صفحہ 189 میں ہے:

ہر فرض کی دوسری جماعت ان چار شرطوں سے مکروہ تحریمی ہے۔

۱۔مسجد محلے کی ہو اور عام راہ گزرپر نہ ہو اور مسجد محلہ کی تعریف یہ لکھی ہے کہ وہاں کا امام اور وہاں کے نمازی معین ہوں۔

۲۔پہلی جماعت بلند آواز سےاذان واقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو۔

۳۔پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی ہو جو اس محلہ میں رہتے ہوں اور جن کو اس مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔

۴۔دوسری جماعت اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت اور اہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے اور یہ چوتھی شرط صرف امام ابویوسفؒ کے نزدیک ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہیئت بدل دینے پر بھی کراہیت رہتی ہے۔پس اگر دوسری جماعت مسجد میں ادا نہ کی جائے بلکہ گھر میں ادا کی جائے تو مکروہ نہیں۔

اسی طرح اگر کوئی شرط ان چار شرطوں میں سے نہ پائی جائے مثلا مسجد عام راہ گزر پر ہو، محلے کی نہ ہو تو اس میں دوسری بلکہ تیسری اور چوتھی جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت بلند آواز سے اذان واقامت کرکے نہ پڑھی گئی ہو تو دوسری جماعت مکروہ نہیں۔ یا پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی جو اس محلے میں نہیں رہتے نہ ان کو مسجد کے انتظام کا اختیار حاصل ہے۔ یا بقول امام ابویوسف ؒ کے دوسری جماعت اس ہیئت سے ادا نہ کی جائے جس ہیئت سے پہلی ادا کی گئی ہے۔یعنی جس جگہ پہلی جماعت کا امام کھڑا تھا دوسری جماعت کا امام وہاں سے ہٹ کر کھڑا ہو تو ہیئت بدل جائے گی اور جماعت مکروہ نہ ہوگی۔

تنبیہ: اگرچہ بعض لوگوں کا عمل امام ابویوسفؒ کے قول پرہے لیکن امام ابوحنیفہؒ کا قول دلیل سے بھی قوی ہے اور حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کیونکہ لوگوں میں دین کے معاملہ میں سستی کریں گے کہ ہم دوسری جماعت کرلیں گے اور اس سے پہلی اصل جماعت کم ہوجائے گی اور اس کا سبب چونکہ دوسری جماعت بنے گی لہذا وہ مکروہ تحریمی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved