• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد میں نعرہ لگانا کیسا ہے؟

استفتاء

مسجد میں نعرہ لگانا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو نعرہ کسی سیاسی یا لسانی وغیرہ دنیوی معاملے سے متعلق نہ ہو اور نہ ہی شرک و بدعت پر مشتمل ہو تو ایسا  نعرہ مسجد میں لگانے کی گنجائش ہے۔

توجیہ: نعرہ لگانا فی نفسہ جائز ہے کیونکہ  مختلف مواقع پر  حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نعرہ لگانا ثابت ہے،  نیز خالص دینی عنوان پر مشتمل نعرہ مثلاً نعرہ تکبیر وغیرہ لوگوں کے دینی جذبات ابھارنے کے لیے لگایا جاتا ہے اور مسجد میں وعظ و نصیحت اور مذہبی تقریروں کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کے دینی جذبات ابھارے جائیں  اس لیے خالص دینی موضوع سے متعلق نعرہ وعظ و نصیحت سے جدا نہیں، اور جس طرح وعظ ونصیحت مسجد میں جائز ہے اسی طرح دینی نعرہ لگانا بھی مسجد میں  جائز ہے۔

کنز العمال (12/547) میں ہے:

عن أسلم قال قال عمر : أتحبون أن أعلمكم كيف كان بدء اسلامي … فجلست بين يديه فاخذ بمجامع قمیصى ثم قال أسلم يا بن الخطاب اللهم اهده فقلت أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أنك رسول الله فكبر المسلون تكبيرة سمعت في طريق مكة وقد كانوا سبعين قبل ذلك ….. الخ

مغازی الواقدی (2/831) میں ہے :

و لما انتهى رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الكعبة فرأها ومعه المسلمون، تقدم على راحلته فاستلم الركن بمحجنه وكبر فكبر المسلمون لتكبيره فرجعوا التكبير حتى ارتجت مكة تكبيرا حتى جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم یشیر اليهم : اسكتوا

شامی(2/434) میں ہے۔

وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني أجمع العلماء سلفا و خلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قاریٔ

ہندیہ(5/397) میں ہے:

الجلوس في المسجد للحديث لا يباح بالاتفاق لأن المسجد ما بني لأمور الدنيا وفي خزانة الفقه ما يدل على أن الكلام المباح من حديث الدنيا في المسجد حرام قال. ولا یتكلم بكلام الدنیا و في صلاة الجلابي الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى كذا في التمرتاشی۔

خیر الفتاوی (2/757) میں ہے:

ایک شخص مسجد کے اندر ہر روز نعرہ تکبیر وغیرہ زور زور سے آوازیں ملا کر لگواتا ہے کیا مسجد میں نعرہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔

الجواب: روزانہ ایسے نعرے لگانا، مستقل عادت بنا لینا اور لوگوں کو اس کا عادی بنانا درست نہیں۔خیر القرون ثلاثۃ میں ایسا عمل ثابت نہیں۔

فتاوی مفتی محمود (2/271) میں ہے:

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے ہاں ایک مسجد میں خطیب مسجد نے رائج کر رکھا ہے کہ اقامت سے پہلے تین نعرے لاؤڈ سپیکر پر صلوٰۃ کے لگائے جاتے ہیں مثلاً الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ، یا رحمۃ للعالمین، یا شفیع المذنبین وغیرہ ان نعروں کا ثبوت قرآن و حدیث سے مل سکتا ہے یا نہیں اور ایسے نعرے لگانے جائز ہیں یا نہیں؟

جواب: نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے سوا باقی تمام نعرے بدعت واجب الترک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved