• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد میں پیسوں کی نذر مانی تو نذر تونہیں ہوتی البتہ ایفائے عہد ضروری ہے

استفتاء

ایک عورت نے منت مانی کہ اگر میری پوتی صحت یاب ہوگئی تو میں مسجد کو ہزار روپیہ دوں گی کیا یہ منت درست ہے؟یعنی مسجد کو منت لگ جاتی ہے؟

وضاحت مطلوب:مسجد میں پیسے دینے سے مراد پیسے ہی دینا ہے یا مسجد کے لئے کوئی چیز خرید کر وقف کرنا مراد ہے؟

جواب وضاحت: مسجد کے گلے میں پیسے ڈالنے کی نیت تھی کوئی چیز خرید کر وقف کرنے کی نیت نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔جس منت میں مسجد کے علاوہ کسی اور کو کوئی چیز دینے کی منت مانی ہووہ منت مسجد کو نہیں لگ سکتی۔

2 ۔جس منت میں روپے پیسے کے علاوہ کوئی اور چیز مسجد میں دینے کی منت مانی ہواس صورت میں وہ منت کی چیز مسجد کو لگ سکتی ہے۔

3 ۔جس صورت میں روپیہ پیسہ مسجد میں دینے کی منت مانی ہوشریعت کی رو سے یہ صورت چونکہ منت کی نہیں لہذا اس صورت میں مسجد میں منت کی وجہ سے یہ پیسے دینا ضروری نہیں البتہ اپنے کئے ہوئےوعدے کی وجہ سے دینا ضروری ہیں۔

في الشامية 5/537 :

ومن شروطه ان يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض،وتشييع الجنازة،والوضوءوالاغتسال،ودخول المسجد، ومس المصحف،والاذان، وبناء

الرباطات والمساجد وغير ذلك، وان كانت قربا الا انها غير مقصودة.

امداد الاحکام جلد 3 صفحہ29,30 میں ہے:

سوال:ایک مسئلہ میں چند آدمیوں کے درمیان تنازع ہو کر حضور کو ثالث مانا لہذا جواب کو مدلل تحریر فرما کر ممنون فرمائیں اور مہربانی فرما کر حوالہ کتب بھی تحریر فرمائیں اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے مرض میں اس طرح منت مانی کہ اگر خدا تعالی شفا دے تو فلاں مسجد میں مبلغ 3 روپیہ للہ دوں گااور بعد اس کے وہ شخص شفاء پایا اب یہ منت ہوئی یا نہیں؟ اور ادا کرنا لازم ہوگا یا نہیں؟ اور اس روپیہ کو مسجد کی بناء میں خرچ کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد میں روپیہ دینے سے اگر مسجد کی تملیک بطور ہبہ کے مراد ہے تو یہ نذر صحیح نہیں ۔گو احوط ایفاء نذر ہےاور اگر یہ مراد ہے کہ ان روپوں کی کوئی چیز خرید کر مسجد کے لئے وقف کی جائے جیسے لوٹا اور بوریا وغیرہ تو اس صورت میں نذر صحیح ہے اور اس کا پورا کرنا بعد وجود شرط کے واجب ہے۔

قال ابن عابدين في حاشية البحر عن البدائع: ومن شروطه اي النذر ان يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض،وتشييع الجنازة،والوضوء والاغتسال،ودخول المسجد،ومس المصحف،والاذان،وبناءالرباطات والمساجد وغير ذلك، وان كانت قربا الا انها غير مقصودة اھ فهذا صريح في ان الشرط كون المنذور نفسه عبادة مقصودة لا ما كان من جنسه ويدل عليه انهم صححوا النذر بالوقف لان من جنسه واجبا وهو وقف مسجد للمسلمين وقد علمت ان بناء المسجد غير مقصودة اھ

قلت: وكذا الهبة للمسجد وان كانت قربة فهي غير مقصودة،وقف مصالححه عليه من القربة المقصودة ومن جنسها واجب وهو وقف مسجد .

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved