• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مسجد سے باہر اقتداء کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

نماز میں اتصال کے لیے دو صفوں میں کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟مثلا  کچھ صفیں مسجد کے برآمدے میں ہیں  اورکچھ صفیں صحن میں ہیں اور درمیان میں فٹ پاتھ ہے تو برآمدہ اور صحن میں کتنا فاصلہ ہو جس سے صفوں میں اتصال ہو جائے؟

وضاحت مطلوب ہے:1۔فٹ پاتھ کی چوڑائی کتنی ہے؟2۔فٹ پاتھ عام راستہ ہے یا صرف مسجد کے اندر آنے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے؟3۔برآمدہ اور صحن مسجد کا حصہ ہیں یا مسجد کی حدود سے باہر ہیں؟

جواب وضاحت:1۔ فٹ پاتھ کی چوڑائی4فٹ ہےاور اس کے ساتھ 2فٹ کی کیاری ہے۔2۔فٹ پاتھ صرف مسجد کے اندر آنے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے،عام راستہ نہیں ہے۔3۔برآمدہ مسجد کا حصہ ہے جبکہ صحن مسجد کی حدود سے باہر ہے۔جس کی صورت یہ ہے:

مسجد
برآمدہ
فٹ پاتھ[4فٹ]

 

 

 

 

 

 

2فٹ کیاری

صحن

 

 

 

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ صحن، مسجد کی حدود سے باہر ہے اور درمیان میں فٹ پاتھ ہے لیکن چونکہ مذکورہ فٹ پاتھ عام راستہ نہیں اس لیے یہ فٹ پاتھ مسجد کے برآمدے اور صحن کے درمیان فاصل نہیں بنے گا،بلکہ اس کے باوجود مسجد کا برآمدہ اور صحن متصل سمجھے جائیں گے۔لہذا صحن میں جو مقتدی کھڑے ہوں ان کی نماز ہو جائے گی۔لیکن اگر صحن تک آگے تمام صفیں پوری ہوں تو ان مقتدیوں کی نماز بلا کراہت جائز ہوگی۔اور اگر صحن کے آگے کچھ صفیں خالی ہوں تو صحن میں کھڑے مقتدیوں کی نماز مکروہ تحریمی  ہوگی۔

فتاوی عالمگیری(1/187)میں ہے:

‌المانع ‌من الاقتداء ثلاثة أشياء.(منها) طريق عام يمر فيه العجلة والأوقار هكذا في شرح الطحاوي إذا كان بين الإمام وبين المقتدي طريق إن كان ضيقا لا يمر فيه العجلة والأوقار لا يمنع وإن كان واسعا يمر فيه العجلة والأوقار يمنع كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة هذا إذا لم تكن الصفوف متصلة على الطريق أما إذا اتصلت الصفوف لا يمنع الاقتداء ولو كان على الطريق واحد لا يثبت به الاتصال بالثلاث يثبت بالاتفاق وفي المثنى خلاف على قول أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يثبت وعلى قول محمد – رحمه الله تعالى – لا. كذا في المحيط.

شامی (2/401)میں ہے:

‌وذكر ‌في ‌البحر ‌عن ‌المجتبى أن فناء المسجد له حكم المسجد، ثم قال: وبه علم أن الاقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح وإن لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد، وكذا اقتداء من بالخلاوي السفلية صحيح لأن أبوابها في فناء المسجد إلخ، ويأتي تمام عبارته. وفي الخزائن: فناء المسجد هو ما اتصل به وليس بينه وبينه طريق. اهـ. قلت: يظهر من هذا أن مدرسة الكلاسة والكاملية من فناء المسجد الأموي في دمشق لأن بابهما في حائطه وكذا المشاهد الثلاثة التي فيه بالأولى، وكذا ساحة باب البريد والحوانيت التي فيها.

فتاویٰ محمودیہ (6/523) میں ہے:

سوال:ایک مسجد جس میں پنج وقتہ نماز جماعت اور عیدین اور جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے اس مسجد کے مشرقی حصہ میں ایک کمرہ ہے اور کمرہ کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہے جہاں سے نمازی وضو اور طہارت کے لیے مسجد کے جنوبی حصہ میں جاتے ہیں۔جماعت کے وقت مسجد کا اندرونی حصہ پر جانے کے بعد مقتدی اس کمرے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور درمیانی حصہ (جو چھ فٹ چوڑا ہے اور شمال سے جنوب میں 23 فٹ لمبا ہے) خالی رہتا ہے۔جواب طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں اقتداء درست ہے یا نہیں؟

جواب: مسجد کا صحن نمازیوں سے بھر جانے کے بعد کمرہ میں بقیہ نمازی کھڑے ہو جائیں اور مذکورہ راستہ آنے والوں کے لیے چھوڑ دیں تو بھی اقتدا درست ہے یہ فصل قلیل ہے جو کہ اقتدا سے مانع نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved