• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسئلہ طلاق ثلاثہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے امی ابو کے گھر رہنے آئی تھی۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی میں نے رہنے کی اجازت مانگی تھی لیکن نہیں دی تو لینے آگئے ۔میں نے کہا” کھانا  کھالیں  چلتے ہیں "کہنے لگے نہیں کھانا،چلو”میرے ابو نے بھی کہا "کھانا  کھاکے جاؤ "تو غصے میں آ گئے کہنے لگے "یہ میری بیوی ہے میں اس کا شوہر ہوں آپ کا کوئی حق نہیں ہے "ابو نے کہا "اسے نہیں جانا میں آپ کے امی ابو سے بات کرتا ہوں اس نے  پھر کہا میں جا رہا ہوں میرے ابو نے کہا لے جا کر دکھاؤ بہت بد تمیزی کر رہا تھا تو اس نے غصے میں کہا "پھر میری طرف سے اس کو تین طلاقیں ہیں” پھر میری طرف سے اس کو تین طلاقیں ہیں” میرے ابو نے ہاتھ جوڑ دیئے کہ میری بچی پر ظلم نہ کرو اس طرح دوبارہ بولا پھر یہ مجھے ساتھ لے گئے پھر اس نے مجھے مار کے بھیجا ہے تو میرے بہنوئی نے کہا کہ آپ نے جس طرح مار کے بھیجا ہے یہ تو پولیس کیس ہے تو کہتا ہے "پھر میں پھر طلاق دے دیتا ہوں "چار بار اس طرح کہاں ہے جو بات ہوئی میں نے وہ بالکل اسی طرح بتائی ہے۔

شوہر  کا بیان :

میں نے کہا تھا :پھر میں طلاق دے دیتا ہوں "میں اپنی وائف کو ساتھ رکھنا چاہتا ہوں میں نے ایک مفتی صاحب سے ساری بات شیئر کی تھی وہ فرما رہے تھے طلاق نہیں ہوئی اور میں نے ڈائریکٹ اپنی وائف کو طلاق کا لفظ نہیں بولا اس کے رشتہ داروں کو کہا تھا کہ پھر میں اسے طلاق دے دیتا ہوں مجھے بیوی کے بیان سے اتفاق نہیں ہے میں نے دونوں موقعوں پر ایک جیسے الفاظ بولے ہیں ۔

وضاحت مطلوب ہے: اس موقع پر موجود افراد کون کون تھے؟ ان کے حلفی بیان مطلوب ہیں کہ شوہر کے منہ سے انہوں نے کیا الفاظ سنے  تھے ؟

جواب  وضاحت :

بیوی کا بیان :میں مسماۃ فاطمہ اپنے پورے ہوش و حواس میں اللہ کو حاضر ناظر مانتے ہوئے حلفا بیان دیتی ہوں کہ میرے شوہر نے عرصہ تین ماہ میں ایک بار مجھ پر بے جا تشدد کیا اور میرے والدین کے سامنے مجھے یہ الفاظ کہے کہ” جا  پھر میری طرف سے تجھے تین طلاق ” جا پھر میری طرف سے تجھے تین طلاقیں”

بیوی کی والدہ کا بیان : میں مسماۃ  یاسمین اپنے پورے ہوش و حواس اور اللہ کو حاضر ناظر مانتے ہوئے یہ حلفا بیان دیتی ہوں کہ عطاء الرحمان نے میری بیٹی فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جا  پھر میری طرف سے تجھے تین طلاق "جا پھر میری طرف سےتجھے تین طلاق ”

بیوی کے والد کا بیان :میں مسمی شیخ اپنے پورے ہوش و حواس اور اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے یہ حلفا  بیان دیتا ہوں کہ عطاء الرحمان نے میری بیٹی فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "جا پھر میری طرف سے تجھے تین طلاقیں ” جا پھر میری طرف سے تجھے تین طلاقیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں بیوی اس بات کی دعویدار ہے کہ اس کے میاں نے درج ذیل الفاظ استعمال کیے ہیں "جا پھر میری طرف سے تجھے تین طلاقیں” اور اس نے اپنے اس دعوے پر اپنے خاندان کے افراد کے حلفیہ بیان بھی مہیا کیے ہیں جبکہ خاوند حلفا کہتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے بلکہ یہ الفاظ بولے ہیں "پھر میں طلاق دے دیتا ہوں” عور ت جب  خود یا کسی معتمد واسطے سے طلاق کے وقوع  کی دعویدار ہو تو شریعت کے لحاظ سےوہ  اپنے علم پر عمل کی پابند ہے مذکورہ صورت میں عورت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرے اور اپنے آپ کو تین طلاقوں سے طلاق یافتہ سمجھے۔

فتاوی شامی (4/411)میں ہے:

المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

(طلاق کے معاملے )میں عورت قاضی  کی طرح ہے لہذا جب عورت نے طلاق خودسن لئی یا کسی معتبر آدمی نے اس کو طلاق کی خبر دے دی تو اس کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا حلال نہیں ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved