• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میت کی طرف سے فدیہ دینا

  • فتوی نمبر: 3-233
  • تاریخ: 01 جولائی 2010
  • عنوانات:

استفتاء

1۔  متوفی صوم و صلاة کے پابند تھے، تقریباً 1953 سے تبلیغی جماعت سے باقاعدہ وابستہ تھے۔ اور 56۔ 1955 سے لاہوری رحمہ اللہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔

2۔ متوفی کے ورثاء میں پانچ بیٹے ، دو بیٹیاں اور ایک بیوہ حیات ہیں۔ تمام  اولاد عیال دار برسرروز گا ہیں۔ مہنگائی کےلحاظ سے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔

3۔ متوفی کے ترکہ میں 10 ایکڑ زرعی زمین ہے، جس کی مستاجری ( ٹھیکہ ) کی رقم مبلغ 29000 روپے موجود ہیں۔

سوال نمبر1: متوفی فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تقریباً  ڈیڑھ سال سے معذور اور سخت بیمار تھے۔ جس کی وجہ سے نمازیں قضاء ہوئیں۔ بیوہ متوفی کی قضاء نمازوں کا فدیہ اس رقم سے ادا کرنا چاہتی ہیں۔

سوال نمبر2: بیوہ متوفی کی قربانی کا حصہ ہر سال رکھنا چاہتی ہیں، جبکہ بیٹے رقم تقسیم کرنے میں بضد ہیں۔ اور اپنے آپ کو  متوفی کے بفیہ رقم کو حقدار سمجھتے ہیں۔ (درج بالا رقم ) درج بالاحالات و واقعات کے پیش نظر ان مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے راہنمائی فرماکر مشکور فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مرحوم کے ترکہ کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔ اس کے بعد اگر کوئی وارث اپنے حصے سے مرحوم کی نمازوں کا فدیہ  ادا کرنا چاہے تو  کرسکتا ہے۔ ورثاء کے ذمے ان کےفدیے کی ادائیگی لازم نہیں۔ اسی طرح قربانی مرحوم کے  ذمے ضروری نہیں۔ البتہ اگر کوئی وارث ان کےلیے  ثواب کی نیت سے کرے تو درست ہے۔ بہرحال دونوں باتوں میں جو  وارث ایسا کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے۔ دوسرے ورثاء کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بھی اس کام میں حصہ ڈالیں۔ اسی طرح مشترکہ میراث میں بھی یہ کام نہیں کیے جاسکتے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved