• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

معذور ومجنون کی نماز کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال(1): اگر کسی شخص کو پیشاب کی ایسی بیماری ہو کہ اسے پتہ ہی نہ چلتا ہو کہ اُسکا پیشاب کب نکل گیا ہے، جس کی وجہ سے اسے ہر وقت پیمپر لگانا پڑتا ہو، اب ایسی حالت میں وہ شخص نماز کیسے پڑھے گا؟ اور وہ پاکی کیسے حاصل کرے گا؟بخار کی شدّت کی وجہ سے کمزوری بھی کافی ہے، خودبیت الخلاء جانا بھی ممکن نہیں ہے، اور ہر نماز کے وقت پیمپر بدلنا بھی مشکل ہے؟

سوال(2): اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہو کہ اسےبخار کی شدت اور کمزوری کی وجہ سے اچھی طرح ہوش نہ ہو، صحیح  طرح بیٹھ بھی نہ سکتا ہو، جس بستر پر وہ لیٹا ہے سر  اُسکا جنوب کی طرف ہے،کیا ایسی حالت میں وہ نماز لیٹے ہوئے اشارہ سے پڑھ سکتا ہے یا اُسکا جسم یا چہرہ مغرب(قبلہ) کی طرف کرنا ضروری ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ  (1) سوال دوم میں مذکورہ مریض بے ہوش یا حواس باختہ کتنی دیر تک رہتا ہے؟(2) دونوں سوالات میں مریض کو کس قسم کا بخار ہے ؟(3) ان کو کوئی وضو کروانے والا اور بیت الخلاء لے جانے والا ہے یا نہیں یعنی یہ مریض کسی کے ساتھ بیت الخلاء جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت :(1)   کچھ وقت (چار ،پانچ  گھنٹے )کے لئےاس دوران  جب وہ بات شروع کرتا ہے،تو عجیب و غریب باتیں کرتا ہے،کبھی صحیح بھی ہو جاتا ہے(2) صرف بخار نہیں ہے،کافی ساری بیماریوں میں مبتلاء ہے  ،اس میں ایک بیماری بخار بھی ہے۔(3) دو سے تین لوگ ہوں تو جاسکتا ہے، لیکن بار بار نہیں، کافی مشقت کرنی پڑتی ہے، جسم تھوڑا وزنی ہونے کی وجہ سے جب پیمپر لگانا ہوتا ہے تب بھی دو سے تین لوگ لگتے ہیں پھر جا کر کہیں پیمپر لگتا ہے ۔

وضاحت مطلوب  ہے کہ  (1)یہ جو حواس باختہ شخص ہے یہ کس بیماری کی وجہ سے ہے؟ (2)کیا مریض کے پاس ہر وقت اتنے لوگ موجود ہوتے ہیں جو مریض کے کہنے پر اس کا پیمپر تبدیل کر سکتے ہوں ؟

جواب :وضاحت : (1)جسم میں انفیکشن کی وجہ سے۔ (2)نہیں، بلانا پڑتا ہے،اور جب تک وہ لوگ نہ آئیں پیمپر نہیں بدلا جا سکتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت  میں مریض کے بلانے پر اگر اتنے لوگ آجائیں جو پیمپر وغیرہ تبدیل کرسکیں  تو پاکی اور وضوکرکے نماز پڑھنا ضروری ہے اگر بلانے پر اتنے لوگ نہ آئیں یا موجود نہ ہوں جو  مریض کو پاکی کرا سکیں تو پاکی حاصل کرنا ضروری نہیں۔ البتہ اگر وضو کروانے والا ہو تو وضو کر کے نماز اسی حالت میں پڑھ لے اور اگر دوران نماز پیشاب پاخانہ نکلنا معلوم ہو تو وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جائیں گے ۔

(2) مذکورہ صورت میں  یہ شخص جب ہوش و حواس میں ہو اس وقت نما زپڑھے گا اور اگر بے ہوشی کے دوران کسی نماز کا وقت آجائے تو اس وقت نماز نہ پڑھے بلکہ جب ہوش میں آئے تو نماز پڑھے بے ہوشی کے دوران جو نماز قضاء ہو جائے ہوش  آنے کے بعد اس کی قضاء کرے،اور قبلہ رخ ہونے کے بارے میں یہ ہے   کہ اگر  کسی کے سہارے سے بیٹھ سکتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سہارے سے بیٹھےاور نماز پڑھے   اور  اگر کسی کے سہارے سے بھی نہیں بیٹھ سکتا تو اس صورت میں   سر کسی چیز(سرہانا ،تکیہ) سے اونچا کر کے مغرب (قبلہ ) کی طرف رخ کر نماز پڑھ سکتا ہے تو پڑھے ورنہ  اسی طرح لیٹے لیٹے  بائیں جانب (قبلہ رخ)ہو جائے یا کوئی  بائیں  کروٹ پر کر دے  جس سے اس کا چہر اور جسم دونوں مغرب (قبلہ)رخ ہو جائیں گے ۔

(1) فتاوی عالمگیری(1/292)میں ہے۔

وكذلك إذا كان على فراش نجس إن كان لا يجد فراشا طاهرا أو يجده لكن لا يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر يصلي على الفراش النجس وإن كان يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر ينبغي أن يأمره حتى يحوله فإن لم يأمره وصلى على الفراش النجس لا يجوز، هكذا في المحيط.مريض تحته ثياب نجسة إن كان بحال لا يبسط شيء إلا ويتنجس من ساعته يصلي على حاله وكذا إذا لم يتنجس الثاني لكن يلحقه زيادة مشقة بالتحويل، كذا في فتاوى قاضي خان.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 284) میں ہے:

“(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) -بالفتح ويكسر- (منه) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبيلين أو لا، (إلى ما يطهر) -بالبناء للمفعول:- أي يلحقه حكم التطهير. ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور، وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج، ولو تركه لسال نقض وإلا لا

(2)فتاوی ہندیہ(1/290)میں ہے:

ثم إذا صلى المريض قاعدا كيف يقعد الأصح أن يقعد كيف يتيسر عليه، هكذا في السراج الوهاج، وهو الصحيح، هكذا في العيني شرح الهداية.وإذا لم يقدر على القعود مستويا وقدر متكئا أو مستندا إلى حائط أو إنسان يجب أن يصلي متكئا أو مستندا، كذا في الذخيرة ولا يجوز له أن يصلي مضطجعا على المختار، كذا في التبيين ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔   وإن تعذر القعود أومأ بالركوع والسجود مستلقيا على ظهره وجعل رجليه إلى القبلة وينبغي أن يوضع تحت رأسه وسادة حتى يكون شبيه القاعد ليتمكن من الإيماء بالركوع والسجود وإن اضطجع على جنبه ووجهه إلى القبلة وأومأ جاز والأول أولى، كذا في الكافي وإن لم يستطع على جنبه الأيمن فعلى الأيسر، كذا في السراج الوهاج، ووجهه إلى القبلة، كذا في القنية.. . . .  مفارقة المريض للصحيح فيما هو عاجز عنه فأما فيما يقدر عليه فهو كالصحيح فإن كان يعرف القبلة ولكن لا يستطيع أن يتوجه إلى القبلة ولم يجد أحدا يحوله إلى القبلة في ظاهر الرواية أنه يصلي كذلك ولا يعيد فإن وجد أحدا يحوله إلى القبلة ينبغي أن يأمره حتى يحوله فإن لم يأمره وصلى على غير القبلة لا يجوز. . . . .ومن أغمي عليه خمس صلوات قضى ولو أكثر لا يقضي والجنون كالإغماء وهو الصحيح.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved