• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مذکورہ بالا فتویٰ 6/ 299 سے متعلق،

استفتاء

بندہ نے یہاں دار الافتاء سے طلاق کی تعلیق کی بابت ایک سوال پوچھا تھا۔ جس میں اپنے باپ یا بیوی کا مال لینے پر بیوی کی تین طلاقیں معلق کی گئی تھیں، آنجناب نے اس کا جواب یہ عنایت فرمایا تھا کہ بیوی کو ایک طلاق بائنہ دے کر عدت گذرنے کے بعد مال لے لیا جائے اور پھر دوبارہ نکاح کر لیا جائے۔ لیکن ہمارے پشتون علاقے کے اعتبار سے اس صورت پر عمل مشکل ہے، جاہل لوگ ہیں ان کو بات سمجھانا بھی مشکل ہو گا۔ اس کی بجائے بندہ کے ذہن میں یہ صورت آئی ہے کہ اگر طلاق معلق کرنے والا آدمی خود مال نہ لے بلکہ متعلقہ مال اس کے بچوں کو دیدیا جائے تو کیا اس سے طلاق سے بچاؤ ہو جائے گا۔

اولاد میں ایک بچی بالغ ہے باقی نا بالغ ہیں۔ براہ کرم اس پر جلد از جلد تحریری فتویٰ جاری کر دیا جائے تاکہ دیکھایا جا سکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر مال بچوں کو دیدیا جائے تو یہ درست ہے چاہے بچے بالغ ہوں یا نا بالغ، اس سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہو گی۔

رجل قال لأخيه إن شاركتك فحلال الله علي حرام ثم بدالهما أن يشتركا قالوا إن كان للحالف

ابن كبير ينبغي أن يدفع الحالف ماله إلی ابنه مضاربة. الخ (هندية: 2/ 119)

رجل حلف أن لا يشارك فلاناً فشاركه بمال ابنه الصغير لا يحنث في يمينه. (قاضيخان: 2/ 40)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved