• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میت کو قبر میں لٹانے کا مسنون طریقہ

استفتاء

قبر میں میت کو قبلہ رو لٹانے کے وجوب یا مسنون ہونے میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں جن میں سے اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے فتاویٰ شامی میں اس کی تصریح کی ہے۔ فتاویٰ شامی کی عبارت ملاحظہ ہو:

قلت: و وجهه أن ظاهره التسوية بين الحياة و الموت في وجوب استقباله، لكن صرح في التحفة بأنه سنة، لما يأتي عقبه ( قوله و لا ينبش ليوجه إليها ) أي لو دفن مستديرا لها أهالو التراب لا ينبش. لأن التوجه إلى القبلة سنة و النبش حرام. ( رد المختار: 2/ 236 )

مگر اس مسنون طریقے کو پورا کرنے کے لیے میت کو قبر میں قبلہ رخ پوری کروٹ دی جائیگی یا پھر اس کو چت لٹا کر صرف چہرہ قبلہ کی طرف پھیر دینا کافی  ہوگا؟

چنانچہ اس مسئلہ میں علمائے کرام کی عبارتوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن کی رو سے ایک رائے کے مطابق میت کو قبرمیں ( قبلہ رو کر نے کی سنت کو پورا کرنے کے لیے ) دائیں کروٹ ہی پر لٹا یا جائے گا، اور چت لٹا کر صرف چہرہ کو قبلہ رو کرنا کافی نہ ہوگا۔جیساکہ مندرجہ ذیل عبارات سے معلوم ہوتا ہے:

1۔ امداد الاحکام  کی عبارت ملاحظہ ہو:

"میت کو قبر میں دائیں کروٹ پر قبلہ کی طرف منہ کر کے لٹانا چاہیے۔ اور اگر لحد ہوتو کمر کے نیچے کوئی پتھر یا کچی اینٹ رکھ دینی چاہیے تاکہ استقبال قبلہ باقی رہے۔” (امدا د الاحکام: 1/ 838 )

2۔ احکام المیت کی عبارت ملاحظہ ہو:

” میت کو قبر میں رکھ کر داہنے پہلو پر اس کو قبلہ رُو کرنا مسنون ہے۔ صرف منہ قبلہ رو کرنا کافی نہیں، بلکہ پورے  بدن کو اچھی طرح کروٹ دیدینی چاہیے”۔ (ص:65 بحوالہ بہشتی زیور)

3۔ فتاوی رحیمیہ کی عبارت ملاحظہ ہو:

"میت کو قبر میں قبلہ کی جہت سے اتارنا مسنون ہے، قبر میں دائیں بازو پر لٹانا سنت مؤکدہ ہے۔ قبلہ جہت پاؤں کرنا ناجائز ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: 7/ 65 )

علاوہ ازیں یہی مسلک  (۱) خیر الفتاویٰ: 3/ 153،  (۲) عمدة الفقہ : 2/ 531،  (۳) امداد الفتاویٰ: 1/ 562،  (۴) احسن الفتاویٰ: 4/ 235،  (۵) علم الفقہ: 2/ 353،  (۶) آپ کے مسائل اور ان کا حل: 2/ 115 میں اختیار کیاگیا ہے۔

جبکہ دوسرے فریق کی رائے کے مطابق یہ ” سنت ” فقط چت لٹا کر چہرہ کو قبلہ رخ کر دینے سے بھی ادا ہوجائےگی۔

1۔ فتاویٰ حقانیہ کی عبارت ملاحظہ ہو:

"احادیث مبارکہ میں میت کے چہرے کا رخ قبلہ کی طرف کرنے کا حکم ہے اور یہ امر دونوں صورتوں میں پورا ہو سکتا ہے۔ تاہم دائیں کروٹ پر لٹا کرقبلہ رخ کرنا بہتر ہے، اگرچہ چت لٹا کر قبلہ رخ کر دینا بھی جائز ہے”۔ (فتاویٰ حقانیہ: 3/ 457)

2۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کی عبارت ملاحظہ ہو:

” میت کو داہنی کروٹ  کرنا اس میں شک نہیں کہ یہ عمدہ ہے۔ کما صرح بہ الفقہاء لیکن اگر منہ قبلہ کی طرف ہو جائے اور داہنی کروٹ پر لٹانا مشکل ہوتو یہ توجہ الی القبلہ یعنی منہ قبلہ کی طرف کر دینا بھی کافی  معلوم ہوتا ہے۔ ( فتاویٰ دارالعلوم دیوبند : 5/ 272 )

جبکہ بعض کتابوں میں دونوں طرح کے فتوے موجود ہیں۔

1۔ کفایت المفتی 4/ 48میں ہے :

” ( میت کو قبر میں) چت لٹا نا اور قبلہ کی طرف منہ کرنا بھی جائز ہے اور کروٹ سے لٹانا اور پشت کی طرف مٹی کے ڈھیلے سے ٹیک لگانا بھی  جائز ہے ۔ اوریہ صورت چت لٹانے سے افضل ہے”۔

2۔ جبکہ اس کتاب کے 4/ 52  پر ذکر ہے :

” میت کو قبر میں یا لحد میں سیدھی کروٹ پر قبلہ کی طرف منہ کرنا سنت ہے، یہی طریقہ اہل اسلام اور زمانہ نبی کریم ﷺ سے مقبول اور زمانہ سلف و خلف میں معمول و متوارث ہے ، ہمارے ائمہ کرام و فقہاء عظام کا مذہب  ہے اور امام شافعی و احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔  صغیری و کبیری، شرح منیہ، اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الأم میں مردے کو رو قبلہ رکھنے کی کیفیت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ ” مردے کی پیٹھ کی طرف ڈھیلہ یا مٹی کی روک کر دے، تاکہ مردہ اوندھا یا چت نہ ہوجائے” ۔۔۔ آخر میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کے تصدیقی دستخط کے ساتھ یہ عبارت درج ہے” یہ صحیح ہے کہ قبر میں مردے کو دائیں کروٹ پر لٹانا مسنون ہے”۔

لہذا آنجناب کی خدمت میں عرض ہے کہ مذکورہ بالا عبارات میں سے راجح کو متعین فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری تحقیق میں میت کو قبر میں لٹانے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ میت کا  چہرہ قبلہ روکر دینے کے ساتھ ساتھ میت کوداہنی کروٹ پر بھی لٹایا جائے۔صرف چہرہ قبلہ روکر دینا سنت کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ۔ اس کی دو وجہیں ہیں:

ایک وجہ تویہ ہے کہ اکثر عربی اردو کتب فقہ وفتاوی میں میت کو قبر میں لٹانے سے متعلق یہی طریقہ ذکر کیا گیاہے۔ اور اس طریقہ کو بالاتفاق کہا ہے ۔چنانچہ عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

قوله (على شقه) أي جنبه (الأيمن اعتباراً بحال الوضع في القبر)فإنه  يوضع فيه كذلك بالاتفاق  (ص:105،ج:2 عنايہ علی حاشیہ الفتح القدیر)

اور فتح القدیر میں ہے :

عن  إبراهيم النخعي قال يستقبل بالميت القبلة وعن عطاء بزيادة على شقه الأيمن ما علمت أحداً تركه من ميت . (ص:104،ج:2)

اور فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"دفن کرنا میت کو داہنے پہلو پر قبلہ رخ بالاتفاق مسنون ومتوارث ومعمول بہا بلا خلاف ہے بلکہ کلام فقہاء علیہم الرحمتہ اس کے خلاف کے منع پر مصرح موجود ہے۔لہذا لوگوں کو چاہیے کہ اس  طریقہ کو معمول بہا اپنا ٹھہراکراپنے موتٰی کو بروجہ  ملت وسنت سید المرسلین علیہ التحیتہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم پر دفنادیں اور جانب پشت میت کے ڈھیلے تکیہ لگادیں تاکہ میت داہنی کروٹ پر قائم رہے جانب پشت لوٹ نہ جاوے۔اس کے بعداس سے متعلق بیسیوں کتابوں  کے حوالہ جات ذکر کرکے اس مسئلہ کو خوب مبرہن کیا ہے” ۔

تفصیل کے لیے دیکھیں فتاویٰ رشیدیہ ،ص:288 تا 295،ج:1 اور مولانا عبدالحي صاحب ؒ  کا رسالہ "رفع الستر عن کیفیة ادخال المیت وتوجیہہ  الی القبلتہ فی القبر”

2۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میت کو قبر میں لٹانے سے متعلق میت کا چہرہ قبلہ روکرنا ایک علیحدہ سنت ہے  اور داہنی کروٹ پر لٹانا علیحدہ سنت ہے۔اور دونوں کے دلائل بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔صرف چہرہ قبلہ رو کردینے سے ایک سنت پر تو عمل ہوجائے گا لیکن دوسری پر عمل نہ ہوگا۔ دونوں پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چہر ہ قبلہ روکرنے کے ساتھ ساتھ میت کو داہنی کروٹ پر بھی لٹایا جائے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:

إذا احتضر الرجل وجه إلى القبله على شقه الأيمن اعتباراً بحال الوضع في القبر…..هوالسنة .

اس کی شرح فتح القدیر میں ہے:

أما توجيهه فلأنه عليه الصلاة والسلام لما قدم المدينة وسأل عن البراء ابن  معرور فقالوا توفي وأوصى…أن يوجه إلى القبلة لما احتضر فقال عليه الصلاة والسلام أصاب الفطرة..رواه الحاكم وأما أن السنة كونه على شقه الأيمن فقيل يمكن الاستدلال عليه بحديث النوم في الصحيحين عن البراء بن عازب عنه عليه الصلاة والسلام قال إذا  أتيت مضجعك فتوضأ وضؤك للصلاة ثم اضطجع على شقك الأيمن…إلى أن قال فإن مت مت على الفطرة .اھ وليس فيه ذكر القبلة.

اس عبارت میں "توجیہ المیت الی القبلہ” اور اس کی دلیل کو علیحدہ ذکر کیاہے اور” کون المیت علی شقہ الایمن” اور اس کی  دلیل کو علیحدہ۔لہذا جن حضرات نے میت کو قبر میں لٹانے سے متعلق سنت کی ادائیگی کے لیے صرف قبلہ کی طرف چہرہ کردینے کو کافی سمجھا ہے،مندرجہ بالا دلائل کی رو سے بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا۔

نیز میت کو قبر میں قبلہ روکرنا اور داہنی کروٹ پر لٹانا، ہماری تحقیق میں نہ تو واجب ہے اور نہ ہی سنت مؤکدہ بلکہ صرف مستحب اور سنت غیر مؤکدہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے  کہ داہنی کروٹ پرلٹانے کو تو تقریباً تمام کتب فقہ وفتاوی میں  سنت غیرمؤکدہ اور مستحب لکھا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالحي صاحب اپنے رسالے "رفع الستر عن کیفیة ادخال المیت وتوجیہہ  الی القبلتہ فی القبر” میں لکھتے ہیں:

وأما الإضجاع على الشق الأيمن فلا شك في استحبابه ۔

پھر اس  کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وهذا كله يدل على استحباب الشق الأيمن وبه صرح صاحب النهر والدرالمختار حيث قال وينبغي ولم أر أحد صرح بوجوبه بل عبارة النهاية والمحيط صريح في عدم وجوبه ويمكن استنباطه من عبارة صاحب الهداية أيضاً فإنه قال إذا احتضر الرجل وجه إلى القبلة على شقه الأيمن اعتباراً بحال الوضع في القبر فقاس الإضجاع عندالاحتضار على الإضجاع في القبر ومعلوم أن الإضجاع على شقه الأيمن عند الاحتضار ليس بواجب بل هو مندوب فكذا هذا.(رسالہ رفع الستر ،ص:9 لمولانا عبدالحي)

اورچہرہ قبلہ روکرنے کو عربی کتب فقہ وفتاوی میں صرف صاحب درمختار نے واجب لکھاہے۔چنانچہ درمختار میں ہے:

(ويوجه إليها)وجوباً (شامی،ص:166،ج:3 طبع بیروت)

لیکن خودصاحب درمختار نے نہ تو اس کا کوئی حوالہ ذکر کیا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ذکر کی ہے۔البتہ علامہ طحطاوی نے اس کی دلیل یوں ذکر کی ہے:

وقوله (وجوباً) أخذه من قول المصنف وغيره بذلك أمر رسول  الله ﷺ لأن الأصل في الأمر الوجوب. (طحطاوی علی الدر،ص:381،ج:1)

اور یہی بات علامہ شامی نے ذکر کی ہے:

قوله(وجوبا) أخذه من قول الهداية : بذلك أمر رسول الله ﷺ۔

لیکن  علامہ شامی کو اس استدلال سے خودبھی تسلی نہیں چنانچہ اس پر استدراک کرتے ہوئے لکھتےہیں:

لكن لم يجده المخرجون وفي الفتح إنه غريب.

پھر علامہ شامی  فتح القدیر کے حوالے سے بطور استئناس کے ایک دوسری دلیل ذکر کرتے ہیں:

وفي  الفتح….استؤنس له بحديث أبي داؤد والنسائي : أن رجلاً قال يا رسول الله ماالكبائر؟ قال هي تسع فذكر منها استحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتاً.اھ

لیکن صاحب فتح القدیر نے یہ استئناس وجوب کے لیے ذکر نہیں کیا کیونکہ ہدایہ وفتح القدیر میں توجہ الی القبلہ ہی کا ذکر ہے اس کے وجوب کا قول نہ تو ہدایہ میں ہےاور نہ ہی فتح القدیر میں ہے ، البتہ علامہ شامی نے صاحب فتح کی ذکر کردہ حدیث سے خود اپنے الفاظ میں یوں استدلال کیاہے:

قلت ووجهه أن ظاهره التسوية بين الحياة والموت في وجوب استقباله.

لیکن اوّلاً تو اس استدلال پر خود علامہ شامی ؒ نے” لکن صرح في التحفة بأنه سنة كما يأتي عقبه "کہہ کر استدراک کیاہے۔

اور ثانیاً خودصاحب درمختار کی بھی یہ عبارت "لاينبش ليوجه إليها” ان کے وجوب کے قول کے معارض ہے۔کیونکہ چہرہ قبلہ رو کرنے کے لیے قبر نہ کھودنے کا قول سنت والے قول کے موافق تو ہے لیکن وجوب کے قول کے موافق نہیں۔ چنانچہ مولانا عبدالحي  صاحب اپنے رسالے"رفع الستر عن کیفیة ادخال المیت وتوجیہہ  الی القبلتہ فی القبر”میں لکھتےہیں:

صرح العلماء الشافعية بأنه لوترك التوجيه إلى القبلة في القبر وجب عليه النبش مالم يتغير (لأن التوجيه عندهم واجب كما هومصرح في هذه الرسالة ناقل) وإن ترك الإضجاع على اليمين كره ولا ينبش(لأن الإضجاع على اليمين مندوب عندهم أيضا:ناقل) وأما علماءنا فاعتبروا إهالة التراب وعدمه ففي السراجية إذا وضع الميت لغير القبلة أو علي يساره فإن كان قبل إهالة التراب أزالواذلك وإن كان أهيل التراب ترك وفي البحر لو وضع لغير القبلة…..وأهيل التراب لاينبش لأن  النبش حرام لحق الله تعالى….قلت هذا كله مبني على القول بسنية التوجيه كما صرح به في التحفة وأما على وجوبه كما صرح به في الدر المختار فينبش مالم يتغير وقدأعجبني صنيع صاحب الدرالمختار حيث صرح بوجوب التوجيه ثم قال ولا ينبش ليوجه إليها وأعجب منه صنيع صاحب رد المحتار حيث كتب تحت قوله(ولا ينبش)….لأن التوجيه إلى القبلة سنة والنبش حرام…..فإن الشارح اختار وجوب التوجيه(ومقتضاه النبش :ناقل) فكيف يصح شرح كلامه بمذهب السنية فالشارح في واد والمحشي في واد آخر.(رفع الستر،ص:9)۔

اورثالثاً یہ استدلال فی نفسہ بھی کمزور ہے کیونکہ حیات میں استقبال قبلہ کا وجوب صرف نماز میں تو ہے لیکن لیٹنے اور سونے یا دیگرحالتوں میں نہیں اور میت کو قبر میں لٹانے کی حالت نماز کی حالت کے مشابہ نہیں بلکہ لیٹنے اور سونے کی حالت کے مشابہ ہے اور لیٹنے اور سونے میں استقبال قبلہ صرف مستحب ہے لہذاقبر میں لٹانے کی حالت میں بھی استقبال قبلہ مستحب ہی ہونا چاہیے نہ  کہ واجب۔

اور اردو کتب فقہ وفتاوی میں صرف مولانا **** صاحب ؒ نے مجموعتہ الفتاوی میں اسے واجب لکھا ہے۔ چنانچہ لکھتےہیں:

"اب  کلام اس میں باقی رہا کہ داہنے کروٹ پرلٹانا اور قبلہ کی طرف منہ کردینا دونوں واجب ہیں یا مسنون؟صاحب تحفہ نے قبلہ کی طرف منہ کردینے کو سنت لکھا ہے اور فقہاء کی ظاہرعبارت اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہےاورصاحب درمختارنے بھی اس کی صراحت کی ہے اور یہی اصح ہے چنانچہ لفظ حدیث "قبلتكم أحياء وأمواتاً” بھی اسی پردال ہے۔ (مجموعتہ الفتاوی 1/ 337)

مولانا**** صاحب نے وجوب کے قول کی تین دلیلیں ذکرکی ہیں۔

پہلی دلیل:صاحب درمختار کا اس کی صراحت کرنا۔

دوسری دلیل: لفظ حدیث"قبلتكم أحياء وأمواتاً” کا بھی اسی پر دلالت کرنا۔ان دونوں دلیلوں سے متعلق تفصیل تو پہلے بیان ہوچکی ہے۔

تیسری دلیل: فقہاء کی ظاہر عبارت کا اس کے وجوب پر دلالت کرنا۔

لیکن مولانا نے سوائے صاحب درمختار کے کسی ایک فقیہ کی بھی کوئی عبارت ذکر نہیں کی کہ جس کا ظاہر وجوب پر دلالت کررہاہو۔ اس کے برخلاف خود مولانا اپنے اسی جواب کے شروع میں حنفیہ وشافعیہ کے نزدیک اسے مسنون قرار دے رہےہیں اور فقہاء کرام کی ایسی عبارتیں ذکرفرمارہےہیں جوصراحتاً سنت ہونے پردلالت کررہی ہیں۔چنانچہ مولانا کے جواب   کے شروع کی عبارت یہ ہے:

جواب: حنفیہ اور شافعیہ رحمہا اللہ کے نزدیک مسنون یہی ہے کہ داہنے پہلوپر میت لٹائی جائے اور اس کے منہ کا رخ قبلہ کی طرف کردیا جائے زمانہ نبوی سے اب تک یہی ہوتاآرہا ہے۔۔۔۔۔ اورایسا ہی صاحب محیط نے لکھا ہے اور ہکذا توارث السنة سے مؤکد کیا ہے اور شیح الاسلام بدرالدین عینی نے منحتہ السلوک شرح تحفتہ الملوک میں لکھا ہے "ويضجع على شقه الأيمن موجها إليها هكذا جرت السنة”.(مجموعتہ الفتاوی1/ 337)

غرض عربی اردو کتب فقہ وفتاوی میں ان دوحضرات کے علاوہ کسی اور سے وجوب کا قول ہمیں نہیں مل سکا۔ جبکہ سنت ہونے کی تصریح بہت سارے حضرات کررہے ہیں۔ اس لیے وجوب کا قول کرنا مرجوح معلوم ہوتاہے اور سنت کا قول راجح۔

لیکن یہ سنت سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ ؟ عربی کتب میں تو مؤکدہ کی تصریح نہیں مل سکی البتہ بعض اردو فتاوی میں سنت مؤکدہ ہونے کی تصریح ہے جیسا کہ فتاوی رحیمیہ میں ہے:

قبرمیں دائیں بازوپرلٹاکرقبلہ رخ کرناسنت مؤکدہ ہے۔(ص:65،ج7 ،طبع دارالاشاعت)

لیکن جن حضرات نے اسے مؤکدہ کہا ہے انہوں  نے اس سے متعلق کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ صاحب تحفہ کے اسے مطلقا سنت کہنے کو ان حضرات نے سنت  مؤکدہ پر محمول کیاہو۔ لیکن علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ نے اعلاء السنن میں صاحب تحفہ کی اس عبارت کو سنت غیر مؤکدہ اور  استحباب پر محمول کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بھی سنت غیر مؤکدہ اور مستحب ہے۔ چنانچہ اعلاء السنن میں ہے:

باب استحباب توجيه الميت إلى القبلة في القبر : أن رجلاً سأله فقال يارسول الله ماالكبائر؟ قال هن تسع، عقوق الوالدين المسلمين واستحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتاً.

قال المؤلف، في نيل الأوطار(3/249) المراد بقوله” أحياء وأمواتاً: في اللحد.وفي رد المحتار:صرح في التحفة بأنه سنةأو غير مؤكدة(أقول أي محمد رفيق ،لعل الصحیح لفظ "أي” مقام لفظ "أو” فيطابق الحديث الباب حيث عقد الباب لاستحباب التوجيه).(اعلاء سنن 8/ 307)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ میت کو قبر میں لٹاتے وقت سنت طریقہ یہی ہے کہ چہرہ بھی قبلہ روہو اور داہنی کروٹ پر بھی لٹایا جائے اور یہ دونوں امرصرف مستحب ہیں نہ سنت مؤکدہ  ہیں اور نہ ہی واجب۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved