- فتوی نمبر: 28-246
- تاریخ: 10 نومبر 2022
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
مفتی صاحب ہمارا ادارہ ہمیں بنیادی تنخواہ کا 30% میڈیکل آؤٹ ڈور دیتا ہے جس سے میں اپنے بیوی بچوں اور والدین کا علاج کرواسکتا ہوں جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں ڈاکٹر کو چیک کرواؤں اور نسخہ پر ڈاکٹر نے جو دوائی لکھی ہے وہ کسی ایسے میڈیکل سٹور سے لوں جو مجھے کمپیوٹر والی پرچی دے پھر وہ بل مجھے ایک اور ڈاکٹر سے تصدیق (Verify) کروا کر جمع کروانا پڑتا ہے یہ طریقہ مشکل ہے اور اس میں وہ پورے پیسے بھی واپس نہیں کرتے کافی مشکل ہوتی ہےاور وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور جس جگہ میں رہتا ہوں یہاں ایسا کوئی میڈیکل سٹو ر نہیں جو کمپیوٹر والی پرچی پر بل بناکردے۔
میں اپنی آسانی کے لیے ایک بندے کو پیسے دیتا ہوں جو مجھے فرضی بل بنواکر تصدیق (Verify) کروادیتا ہے اور میں یہ بل جمع کرواکر پیسے لے لیتا ہوں، اب آپ کو معلوم ہی ہے کہ میڈیکل سٹور پر خرچہ تو ہوتا ہی ہے کسی مہینے پیسے زیادہ لگ جاتے ہیں،کسی مہینے کم اور کسی مہینے خرچہ نہیں بھی ہوتا۔
(1)کیا میں اپنی آسانی کے لیے ٹھیک طریقے سے بل بنا کر پیسے لے سکتا ہوں ؟
(2) جو میرا خرچہ ہوا ہے وہ پیسے رکھ کر باقی پیسے کسی ضرورتمند کو دے سکتا ہوں؟
(3)میری ایک بوڑھی خالہ جو اکثر بیمار رہتی ہیں وہ میرے زیر کفالت ہیں کیا میں ان کا علاج بھی کرواسکتا ہوں ؟
برائے مہربانی اگر اس مسئلے میں کوئی گنجائش نکلتی ہے تو میری رہنمائی فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو آپ کا حقیقی خرچہ ہوا ہو صرف اس کی حد تک جعلی بل بنواکر وہ خرچہ وصول کرسکتے ہیں حقیقی خرچے سے زیادہ وصول کرنا اور زائد کسی ضرورت مند کو دینا درست نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved