• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میڈیکل اسٹور والے کو ڈگری دینے کی صورتوں کا حکم

استفتاء

  1. اگر کسی بندہ کو كوئی بندہ اپنی میڈیکل ا سٹور کی ڈگری دیتا ہے اور یہ ڈگری دینے والا بندہ  مہینے  میں کسی ایک دن ، ایک گھنٹے کے لیے اسٹور پر ٹائم بھی دیتا ہے اور اس  ٹائم کے بدلے یہ  بندہ میڈیکل اسٹور والے سے ایک سال کا 125000  روپے لیتا ہے تو کیا اس ڈگری دینے والے بندے کے لیے ایسا کرنا شریعت میں جائز ہے؟
  2. مندرجہ بالا صورتحال میں اگر یہ ڈگری والا بندہ میڈیکل اسٹور کی ڈگری دیتا ہے  لیکن ٹائم نہیں دیتا اور اسٹور میں 5% حصہ ڈال لیتا ہے اور 5% کے حساب سے  نفع لیتا ہےتوکیا  اس بندے كے ليےایسا كرنا شریعت میں جائز ہے؟
  3. اگر میڈیکل اسٹور پر ڈرگ انسپكٹر رشوت لیتا ہو اور اگر رشوت نہ دی جائے تو ناجائز تنگ کرتا ہو تو اس صورت میں ہدیہ کی نیت کرکے ڈرگ انسپکٹر کو ميڈيكل اسٹور والا اگر پیسے دے دے تو کیا ميڈيكل اسٹور والے كے ليے شریعت میں یہ جائز ہے؟
  4. اگر ڈگری ہولڈر کسی ميڈيكل اسٹور والے کو اپنی ڈگری دیتا ہےاور میڈیکل اسٹور والے کو قانون کے مطابق اسٹور چلانے کا کہتا ہے مگر اسٹور والا قانون کے مطابق نہیں چلاتا تو اس کا گناہ ڈگری دينے والے کو تو نہیں  ہوگا؟
  5. میڈیکل اسٹور کی ڈگری کرایہ پر دینا جائز نہیں مگر مکان یا کوئی اور چیز کرایہ پر دینا جائز ہے ایسا کیوں ہے؟
  6. ایسی کونسی صورت ہے جس میں میڈیکل اسٹور کی ڈگری کسی کو دینا جائز ہے؟

تنقیح: حکومت کی طرف سے یہ ضروری ہے کہ میڈیکل اسٹور پر ہر وقت ایسا شخص موجود ہو جس کے پاس میڈیکل اسٹور کی ڈگری ہو، خواہ  وہ ڈگری والا میڈیکل اسٹور کا مالک ہو یا اس کا کوئی ملازم ہو۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مذکورہ صورت میں دو احتمال ممکن ہیں پہلا یہ کہ جتنا  وقت ڈگری دینے والا دیتا ہے اس کی اجرت اسی حساب سے دی جائے یعنی اگر کوئی اور شخص اتنا ہی وقت دیتا جتنا یہ ڈگری والا دے رہا ہے   تو اس کو اتنی ہی  یا اس کے قریب قریب اجرت دی جاتی جتنی اس ڈگری والے کو  دی جا رہی ہے تو یہ صورت  جائز ہے لیکن چونکہ حکومت کی یہ پابندی کہ ڈگری والا خود ہی اسٹور چلائے یا اسٹور پر ہر وقت ایسا شخص موجود ہو جس کے پاس مذکورہ ڈگری ہو  مصلحت  پر  مبنی  ہے اور  حکومت کی مصلحت پر مبنی پابندیوں کی خلاف ورزی درست نہیں اس لیے اس صورت سے بچنا بھی ضروری ہے ،دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے وقت کے حساب سے جتنی اجرت بنتی ہے اس سے زائد  اجرت دی جائے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے تو چونکہ یہ صورت اصلا ڈگری کے اجارے کا حیلہ ہی ہے     اس لیے حکومتی پابندی  کی خلاف ورزی سے قطع نظر بھی یہ  مکروہ ہے ۔

  1. اس میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اگر اس کی انویسٹمنٹ پر اسے جو  نفع دیا جارہا ہے کوئی اور شخص اتنی ہی  انویسمنٹ کرتا تو اسے بھی اتنا ہی دیا جاتا تو یہ صورت جائز ہے لیکن  حکومت کی مصلحت  پر مبنی پابندی کی خلاف ورزی کی وجہ سے اس صورت سے بچنا بھی ضروری ہے اور اگر اس ڈگری والے کو   عام انویسٹر سے زائد نفع دیا جا رہا ہو تویہ    صورت  حکومتی پابندی  کی خلاف ورزی  سے قطع نظر بھی  مکروہ ہے نیز   ایسی صورت میں اس کا نفع اس کی انویسٹمنٹ کے فیصد ٪  (مثلا مذکورہ مثال میں 5 فیصد) سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔
  2. ہدیے کی نیت کرنے سے وہ ہدیہ نہیں بنے گا بلکہ رشوت ہی رہے گی البتہ اگر مجبوری ہے تو گنجائش ہے  ۔
  3. قانون کے مطابق نہ چلانے سے کیا مراد ہے؟ نیز خالی ڈگری دیتا ہے یا ساتھ میں وقت بھی دیتا ہے؟
  4. صرف ڈگری (کاغذ کا ٹکڑا) کوئی ایسی چیز نہیں جو قابل اجارہ ہو کیونکہ دیگر جو اشیاء کرائے پر دی جاتی ہیں ان کی ویلیو میں استعمال سے فرق پڑتا ہے جبکہ ڈگری کی ویلیو پر استعمال سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔

6.فی الحال ایسا کوئی متبادل جو مطلقاً جائز ہو  ہمارے علم میں نہیں ہے۔

بدائع الصنائع (5/ 192) میں ہے:

«وكذا روي عن محمد أنه قال: ‌إذا ‌باع ‌الدراهم ‌بالدراهم، وفي أحدهما فضل من حيث الوزن، وفي الجانب الذي لا فضل فيه فلوس فهو جائز في الحكم، ولكني أكرهه، فقيل: كيف تجده في قلبك؟ قال: أجده مثل الجبل والحاصل أنه ينظر إلى ما يقابل الزيادة من حيث الوزن من خلاف الجنس، إن بلغت قيمته قيمة الزيادة، أو كانت أقل منها مما يتغابن الناس فيه عادة جاز البيع من غير كراهة، وإن كانت شيئا قليل القيمة كفلس وجوزة ونحو ذلك يجوز مع الكراهة، وإن كان شيئا لا قيمة له أصلا ككف من تراب ونحوه لا يجوز البيع أصلا؛ لأن الزيادة لا يقابلها عوض فيتحقق الربا»

الدر المختار (9/ 95) ميں  ہے:

‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل

شامی (6/ 478)میں ہے:

(و تصح مع التفاضل في ‌المال ‌دون ‌الربح وعكسه)

قوله: ومع التفاضل في ‌المال ‌دون ‌الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال

مبسوط  (16/ 42) میں ہے:

«وكذلك ‌الاستئجار ‌على ‌الحداء، وكذلك الاستئجار لقراءة الشعر؛ لأن هذا ليس من إجارة الناس والمعتبر في الإجارة عرف الناس

شامی (9/ 157)میں ہے:

(استأجر شاة لإرضاع ولده أو جدية لم يجز) ‌لعدم ‌العرف

کفایت المفتی(9/228) میں ہے:

سوال: کاغذ کا ٹکٹ مالِ متقوم ہے یا نہیں؟ ایک روپیہ اس کی قیمت گنی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یہ ٹکٹ اس کی مدتِ مقررہ میں بِک سکتا ہےپھر اس کے بعد نہیں بِک سکتا اگر یہ ٹکٹ مالِ متقوم ہے تو اس کو ایک روپیہ میں خرید لیا گیا پھر کمپنی جس کو چاہے بذریعہ قرعہ  انعام  دے اس کو اختیار ہےلہٰذا اس معاملہ کو قمار کیسے کہ سکتے ہیں؟

جواب: یہ ٹکٹ  مالِ متقوم ( فی حد ذاتہٖ اگرچہ ہو) اس معاملہ میں نہیں۔ نہ اس کی بیع شراء مقصود ہوتی ہے نہ یہ کسی کام میں سوائے اشتراک فی استحقاق الانعام کے کار آمد ہے۔  والعبرة للمقاصد

اسلام کا نظام تقسیم دولت،  مؤلفہ مفتی شفیع صاحبؒ (31،32) میں ہے:

معیشت کے مادی وسائل دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک تو وہ جنہیں استعمال کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے  انہیں خرچ نہیں کرنا پڑتا، بلکہ وہ اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے فائدہ دیتے ہیں  مثلاً زمیں مشنری ، فرنیچر، سواری وغیرہ ۔۔۔۔دوسری طرف ان کے استعمال سے ان کی قدر گھٹتی ہے۔ اس لیے ان کے منافع کی اجر ت کا لین دین بالکل معقول اور درست ہے۔

اس کے برخلاف نقد روپیہ وہ چیز ہے جس سے فائدہ حاصل کرنے لیے اسے خرچ یا فنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ دوسری طرف مقروض کے استعمال کی وجہ سے روپیہ کی قدر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، اس لیے اس پر کوئی معین شرح سود مقرر کرنے میں کوئی معقولیت نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved