• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مہر اور میراث پر زکوٰۃ کے وجوب کا حکم

استفتاء

1۔شوہر کے انتقال کے بعد وراثت کی رقم دو سال بعد تقسیم ہوئی تو کیا بیوی اس رقم پرگذشتہ 2 سال کی زکوة ادا کرے گی؟

2۔ اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا  تھا تو کیا وراثت کی تقسیم سے پہلے مہر ادا کیا جائے گا اور شوہر نے مہر چاندی کے حساب سے دینا تھا تو چاندی کی کس قیمت کا اعتبار ہو گا نکاح کی تاریخ پر جو چاندی کی قیمت تھی یا وفات کی تاریخ پر یا وراثت کی تقسیم کی تاریخ پر؟

وضاحت مطلوب ہے: وراثت میں رقم ہی تھی یا کوئی اور چیز تھی جس کو بیچ کر حصہ دیا گیا؟ مہر میں چاندی طے ہوئی تھی یا اس کی قیمت؟

جواب وضاحت: وراثت میں صرف نقد رقم تھی جو دو سال بعد تقسیم ہوئی (بیوہ پہلے سے صاحب نصاب ہیں) مہر میں چاندی طے ہوئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک مذکورہ صورت میں بیوی اس ملنے والی رقم پر گذشتہ دو سال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گی البتہ صاحبین ؒ کے نزدیک ادا کرے گی لہٰذا زکوٰۃ ادا کرنے میں آسانی ہے تو زکوٰۃ ادا کردے ورنہ ادا نہ کرنے کی بھی گنجائش ہے۔

2۔ وراثت کی تقسیم سے پہلے مہر ادا کیا جائے گا اور ادائیگی کے دن کی قیمت کے اعتبار سے ادا کیا جائے گا۔

السراجی فی المیراث صفحہ 2 پر ہے:

ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين ورثته……

بدائع الصنائع(2/10) میں ہے:

وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا ‌أما ‌القوي ‌فهو ‌الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا.وعند أبي يوسف ومحمد كلما قبض شيئا يؤدي زكاته قل المقبوض أو كثر.

وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.

وأما الدين الوسط فما وجب له بدلا عن مال ليس للتجارة كثمن عبد الخدمة، وثمن ثياب البذلة والمهنة وفيه روايتان عنه، ذكر في الأصل أنه تجب فيه الزكاة قبل القبض لكن لا يخاطب بالأداء ما لم يقبض مائتي درهم فإذا قبض مائتي درهم زكى لما مضى، وروى ابن سماعة عن أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه لا زكاة فيه حتى يقبض المائتين ويحول عليه الحول من وقت القبض وهو أصح الروايتين عنه، وقال أبو يوسف ومحمد: الديون كلها سواء، وكلها قوية تجب الزكاة فيها قبل القبض.

رسائل ابن عابدین جلد 2 صفحہ 63 پر ہے:

وفي الخلاصه والبزازيه غلت الفلوس او رخصت فعند الامام الاول والثاني اولا ليس عليه غيرها وقال الثاني ثانيا عليه قيمتها يوم البيع و القبض وعليه الفتوى انتهى اى يوم البيع في البيع ويوم القبض في القرض كذا في النهر

فتاویٰ محمودیہ جلد (12/58) میں ہے  :

سوال عقد میں مہر نو اوقیہ زر خالص مقرر کیا گیا ہے زر خالص یعنی طلا کی قیمت کا اعتبار زمانہ عقد کاہوگا یا زمانہ مابعد مطالبہ کی قیمت کا؟

الجواب حامدا و مصلیا:جب زر خالص کی مخصوص مقدار کو مہر مقرر کیا گیا ہے تو اس کا ادا کرنا واجب ہے اگر سونا ادا نہ کیاجائے بلکہ اس کی قیمت دی جائے تو گویا اب اس زر خالص کو جس کی زوجہ مستحق ہے شوہر اس سے حکما خرید کر قیمت دے رہا ہے تو اب جو قیمت ہوگی اس کے اعتبار سے معاملہ ہو گا یہ بات دوسری ہے کہ بیوی کم قیمت لے لے اس صورت میں گویا بیوی نے مہر کی اتنی مقدار معاف کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved