• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

محض کسی کے نام پر مکان خریدنے سے ہبہ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کے تین بیٹے ہیں اس کا خاوند باہر نوکری پر چلا جاتا ہے اور وہاں سے وہ رقم اکٹھی کرکے اپنی بیگم کے نام پر پاکستان میں ایک گھر خرید لیتا ہے، پھر جب خاوند واپس پاکستان آتا ہے تو وہ بیوی سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ گھر میرے نام پر کردو لیکن وہ عورت یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ یہ اس کے بچوں کا حق ہے، کچھ عرصے تک اسی طرح وہ مطالبہ کرتا رہتا ہے پھر اس کے بعد وہ مکان کے اپنے نام کروانے کا مطالبہ بند کر دیتا ہےاسی عرصے میں ان کے بچے بھی بڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے کچھ عرصے بعد وہ شخص فوت ہو جاتا ہے اور فوت ہونے سے قبل اپنی بیوی کو مکان کے کاغذات سنبھال کر رکھنے کا کہتا ہے، خاوند کے فوت ہونے کے بعد کچھ عرصہ اس کی بیوی اس مکان میں رہتی ہے اور اس کے بچے ترقی کر کے اپنا علیحدہ علیحدہ گھر تعمیر کر لیتے ہیں اور وہاں پر شفٹ ہو جاتے ہیں پھر وہ عورت بھی اپنے ایک بیٹے کے پاس اپنے بیٹے کے مکان میں شفٹ ہو جاتی ہے اور اپنے پرانے مکان کو کرائےپر چڑھا دیتی ہے اور کرائے کی رقم کو اپنے تصرف میں لاتی ہے، اس کے دو بیٹے اپنے پرانے مکان کی بابت اپنی ماں کو مکمل اختیار دیتے ہیں کہ آپ چاہیں تو اس کو بیچ کر رقم اپنے پاس رکھ لیں یا اس کو کرائے پر چڑھا کر اس کا کرایہ اپنے استعمال میں لائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ایک بیٹا یہ کہتا ہے کہ آپ کا حصہ 8/1بنتا ہے آپ اگر مکان کو فروخت کریں تو صرف8/1 حصہ کی رقم اپنے پاس رکھیں اور باقی اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیں اور اگر آپ مکان کو کرائے پر چڑھائیں تو بھی کرائے کا جو حصہ آپ کا بنتا ہے وہ اپنے استعمال میں لائیں تاکہ روز محشر اس بارے میں آپ کی پوچھ نہ ہو، جبکہ ان بچوں کی ماں یہ کہتی ہے کہ کیونکہ یہ مکان ان کے خاوند نے اپنی زندگی میں ان کے نام پر خریدا تھا اس لیے یہ ان کا حق ہے کہ جس طرح چاہے استعمال کریں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس عورت کا خاوند اپنی زندگی میں مکان اپنی بیوی کے نام کر چکا ہے تو کیا اس کے بیٹوں کا خاوند کی وساطت سے اس گھر میں حصہ بنتا ہے؟ یا اس گھر کے کرائے میں اس کے بچوں کا حصہ بنتا ہے؟ جبکہ دو بیٹے اپنی ماں کو اپنی رضامندی سے مکمل اختیار دے چکے ہیں اور ایک بیٹا اس بابت انکاری ہے، یا ان بچوں کی ماں اس مکان کو فروخت کرکے تمام رقم اپنے پاس رکھ سکتی ہے؟ مہربانی فرما کر وضاحت فرمائیے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ:

1۔سائل کا عورت سے کیا رشتہ ہے؟

2۔کیا شوہر نے بیوی کو کبھی یہ کہا تھا کہ یہ گھر تمہارا ہے یا اور کچھ کہا ہو ؟

جواب وضاحت:

1۔سائل عورت کا بھتیجا ہے،اور انہوں نے میرے ذمہ لگایا ہے کہ انہیں شرعی مسئلہ معلوم کر کے بتاؤں۔

2۔اس بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعۃً درست ہے تو مذکوورہ مکان میں تمام ورثاء کا حق ہے لہذا جو بیٹا اپنے حصے کا مطالبہ کر رہا ہے اس کو اس کا حصہ دینا ضروری ہے،البتہ جو بیٹے اپنا حصہ اپنی والدہ کو دینے پر راضی ہیں والدہ ان کا حصہ استعمال کر سکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر کے اس مکان کواپنے نام پر منتقل کروانے کا مطالبہ کرنے سے  یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کے نام مکان کروانے سےمقصود یہ مکان بیوی کو دینا نہیں تھابلکہ ملک میں موجود نہ ہونے کی وجہ سےبامر مجبوری تھا لہذا وہ مکان شوہر ہی کی ملکیت سمجھا جائے گا اوراب اس کے انتقال کے بعد اس میں تمام ورثاء شریک ہیں۔

البنایہ شرح الہدایہ(7/373)میں ہے:’’ الشركة ضربان: شركة أملاك، وشركة عقود، فشركة الأملاك العين يرثها الرجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه‘‘فتاویٰ خلیلیہ(ص:269)میں ہے:’’سوال: بکر نےاپنی حیات میں جو جائیداد غیرمنقولہ خرید کی وہ ۔۔۔اپنے دو پسران کے نام سے  جو ابهی نا بالغ ہیں خریدی۔۔۔۔۔بکر 1911ءمیں بیمار ہو کر قضاء الٰہی سے شروع1912ء میں فوت ہو گیا،اور اپنے وارثان میں چند لڑکے اور لڑکیاں اور زوجہ کو چھوڑا،اب بحکم شرعی وہ جائیداد جو دو پسران کے نام سے ہے اس کے وہ دونوں پسران مالک رہے یا کل وارثان پر منقسم ہو گی؟الجواب:’’۔۔۔۔۔اگر کسی مصلحت سے فرضی طور پر اپنےنابالغ فرزندان کے نام لکھوایا،اور بوقت شراء اپنے ہی لیے خریدنا مد نظر تھا تو اس صورت میں وہ شی خود عاقد کی ملک ہو گی۔۔۔الخ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved