• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ممبر بنانے پر کمیشن لینا

استفتاء

حضرت بندہ نے ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی۔

جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک کمپنی اپنی چیزیں بیچتی  ہے، ان میں بعض چیزیں مثلاً میڈیسن ( ادویات ) اور   کاسٹمیٹکس اور میڈیکل آلات وہ خود بناتی ہے، اس کے ساتھ اس کمپنی کے بڑے یوٹلٹی جنرل سٹور بھی کھولے ہیں۔ ان میں گھریلو اشیاء ضرورت وہ دوسری کمپنیوں سے خرید کر بیچتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی اس کمپنی کا ممبر جاتا ہے، اس کو ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اس ممبر شب کی 400 روپے فیس بھی ہے۔ اس ممبر شب کے بے ضروری ہے کہ آپ نے فارم پُر ( فل ) کرتے وقت پہلے سے موجودہ ممبر کا حوالہ نمبر لکھنا ہوتا ہے۔ کہ میں اس ممبر کے حوالے سے آیا ہوں۔ اب ممبر بننے کے بعد وہ شخص اس کمپنی کی چیزیں یا ان کے سٹور سے دوسری ضروریات کے چیزیں جو اس کی اپنی پیداوار  نہیں  ہیں وہ خریدتا ہے تو اس پر اس کو ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ وہ ڈسکاؤنٹ اس کو  وہ اس کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ ڈسکاؤنٹ  اس کے شاپنگ تک اس کو کوئی ڈسکاؤنٹ کی سہولت نہیں لیکن جب دس ہزار کی شاپنگ اس نے کر لی، چاہے ایک ہی وقت میں یا مختلف اوقات میں تو پھر اس کے بعد جب شاپنگ کرے گا چاہے وہ ایک روپے کی  ہی  کیوں نہ ہو تو اس کو ڈسکاؤنٹ دیں گے، جو 20 فیصد ہوتا ہے۔ وہ اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہے گا۔

پھر مہینے کے بعد وہ شخص سٹور سے جا کر کیش کی صورت میں اپنا جمع شدہ ڈسکاؤنٹ وصول کر لیتا ہے۔

اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اب یہ آدمی خود اس کا گاہک بن گیا ہے۔ اب یہ کسی دوسرے آدمی کو تیار کرے کہ یار تم بھی اس سٹور یا کمپنی کی ممبر شب لے لو۔ اور وہیں سے خریداری کیا  کر، ان کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرو۔ کمپنی نے میڈیسن کے لیے ایک ڈاکٹر بھی رکھا ہوا ہے، آپ اس کو چیک اپ کروا  کرا پنی میڈیسن تجویز کروا لو اور پھر اس کی ادویات استعمال  کرو اور دوسری چیزیں بھی استعمال کرو۔ اس طرح کر کے میں دو تین بندے یا جتنے بھی زیادہ لوگوں گاہک بنایا، اب جب وہ ممبر بنیں گے، تو ان کی ممبر شب میں میرا تنخواة لکھا جائے گا۔  اب جب وہ ممبر وہاں سے خریداری کریںبے ، جو میری محنت سے اس کے گاہک بنے، مثلاً اگر تین ایسے بندے ہیں جو میری وجہ سے ممبر بنے  تو  اب جب وہ شاپنگ کریں گے تو ان کو بھی اس طرح بیس فیصد مہینے کے آخر میں ڈسکاؤنٹ ملے گا، جبکہ اس شخص کو جس کے ریفرنس سے یہ تین بندے ممبر بنے اس کے 24 فیصد ڈسکاؤنٹ یا کمیشن ملے گا۔ چاہیے وہ خود شاپنگ کرے یا ان تین اشخاص کی شاپنگ ہو، اس کو متعارف کروانے والے کو 24 فیصد کمیشن ملنا شروع ہوگا۔ لیکن ملے گا اسی پر جتنی شاپنگ ہوگی چاہے اس نے خود خریدے یا اس کے متعارف کروائے ہوئے لوگوں نے شاپنگ کی۔ اگر دونوں نے یعنی اس شخص اور تین چار یا جتنے بھی لوگ اس کی وجہ سے ممبر بنے اگر کوئی شاپنگ نہیں کی تو   اس پر ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر اس پہلے شخص نے کوئی شاپنگ نہیں کی پورے مہینے ، لیکن جس کو اس نے متعارف کروایا تھا انہوں نے کی ہے پھر بھی پہلے  آدمی کو 24 فیصد ان کی شاپنگ پر ملتا رہے گا، اور ان کو اپنی شاپنگ پر بیس فیصد ملتا رہے گا۔ اسی طرح وہ تین آدمی آئے اور کسی کو اپنے ریفرنس سے ممبر بنواتے ہیں اور پھر ان کے نیچے بھی تین تین آدمی آجاتے ہیں تو پھر ان تین آدمیوں کو بھی 24 فیصد کمیشن ملے گا۔ اور جب ان سب کی شاپنگ ایک خاص حد تک بڑھے گی تو جو پہلاشخص ہے اس کی کمیشن 24 سے 28 فیصد ہو جائے گا۔ اب اسی طرح آگے سلسلہ بڑھتا رہے گا، ہر ایک کی کمیشن ا س کو  ملتی رہے گی۔ اور کمیشن میں اضافہ بھی اسی صورت میں ہوتا  رہے گا۔ لیکن کمیشن  ملے گا صرف اسی صورت میں جب شاپنگ ہوتی رہے گی۔ یعنی اس پوری زنجیر میں اگر سو نمبر والے آدمی بھی شاپنگ کی ہے تو اسکا فائدہ پہلے بندے تک سب کو ملے گا۔ اور اگر پوری چین میں کوئی بھی شاپنگ نہیں کرتا تو پھر کسی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور کمیشن کے لیے کمپنی کے پوائنٹ یا نمبر رکھے ہوئے ہیں یعنی اگر آپ نے سو روپے کی ادویات خریدی ہیں تو اس پر ایک نمبر یا پوائنٹ ملتا ہے۔ اور اگر آپ نے پرفیوم دو سو روپے کا خریدا ہے تو پھر ایک نمبر ملے گا۔ اسی طرح کمپنی دوسری کمپنیوں کی جو چیزیں رکھتی ہے وہ اگر 500 کی خریدی ہیں تو پھر ایک نمبر ملے گا،  اور کمیشن اس کے نمبروں پر یا پوائنٹ پر ملتا ہے اور کمپنی ایک نمبر کو ایک ڈالر  کے برابر سمجھتی ہے۔ اور اس میں ممبر شب ختم کبھی نہیں ہوتی۔ اگر چہ آپ کی کمیشن صفر ہی کیوں نہ بن رہی ہو۔

حضرت جواب طلب یہ ہے کہ کیا یہ کام جائز ہے کہ نہیں؟ اور اپنی اس شاپنگ پر  جو کمیشن ملتا ہے وہ جائز ہے کہ نہیں ؟

1۔ صرف اپنی شاپنگ پر جو کمیشن ملے وہ جائز ہے یا  نہیں؟

2۔ جو آگے ممبر بنائے ان کی شاپنگ پر یا انہوں نے آگے جو ممبر بنائے ان کی شاپنگ پر کمیشن وہ جائز ہے یا  کہ نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کے سوال میں کمپنی سے معاملہ کرنے کے دو پہلو ذکر کیے گئے ہیں۔

1۔ ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد اپنی حد تک ڈسکاؤنٹ لینا۔

2۔ ممبروں کی زنجیر میں منسلک ہوکر اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے کمیشن لینا۔

شریعت کے لحاظ سے دونوں پہلو ہی ناجائز ہیں۔

دوسرے پہلو کے ناجائز ہونے کی وجہ  یہ ہے کہ اس میں پہلا ممبر بعد میں بالواسطہ بننے والے ممبروں کی محنت کا عوض مفت میں سمیٹ رہا ہے۔ کیونکہ اس پہلے ممبر کی آگے بالواسطہ بننے والے ممبروں پر اپنی ذاتی کوئی محنت نہیں کی جس پر اس کے لیے کمیشن لینا جائز ہو۔

اور پہلے پہلو ( یعنی اپنی حد تک ڈسکاؤنٹ لینے ) کے ناجائز ہونے کی یہ وجوہات ہیں:

1۔ سوال میں ذکر کی گئی تصریح کے مطابق اپنی حد تک ڈسکاؤنٹ لینے  کے لیے بھی سابقہ ممبر کا حوالہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ یعنی پہلی صورت دوسری پر موقوف ہے۔ اور دوسری صورت واضح طور سے ناجائز ہے۔ تو پہلی صورت کا ناجائز ہونا بھی کھلی ہوئی بات ہے۔

2۔ یہ ڈسکاؤنٹ فقہی توجیہ کے لحاظ سے ” حط فی الثمن” ( یعنی بائع کی طرف سے قیمت میں کمی کرنا ) بنتا ہے۔ جیسا کہ ڈسکاؤنٹ کے لفظ سے ہی پتہ چلتا ہے۔

اور حط فی الثمن کے متعلق فقہی ضابطہ یہ ہے کہ وہ چاہے قیمت کی ادائیگی سے پہلے ہو  یا بعد میں ہو، بہر صورت اصل اور بنیادی معاملے کا حصہ قرار پاتا ہے۔ اور دونوں کے اثرات ایک دوسرے پر پڑتے ہیں۔

إذا حط البائع من  ثمن المبيع مقداراً كان جميع المبيع مقابلاً للباقي من الثمن بعد التنزيل والحط. وقال الأتاسي في شرحه: لما تقدم من  أن الحط يلتحق بأصل العقد. سواء كان الحط قبل القبض الثمن أو بعده. و هذا إذا كان الحط بلفظ الحط أو  الإسقاط.

وأما إذا  كان بلفظ الهبة فإن كان قبل قبض الثمن فكذلك. و إن كان بعد القبض فلا يلتحق. (شرح المجله، ص: 187، ج؛ 2)

چنانچہ یہاں ہمارے زیر بحث مسئلے میں ڈسکاؤنٹ کی صورت میں یہ سمجھا  جائے گا  کہ اصل معاملہ اور  عقد ہی مثلاً سو روپے  کی بجائے ۸۰ پر ہوا ہے۔ جب ڈسکاؤنٹ اصل معاملے کا حصہ بن گیا تو اس کا ناجائز ہونا واضح ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ ڈسکاؤنٹ اور حط حتمی اور یقینی نہیں بلکہ مشروط اور معلق ہے، گویا ایسے ہوا کہ اگر خریداری فلاں حد تک پہنچ گئی تو یہ چیز اسی ۸۰ کی ہوگی اور اگر نہ پہنچی تو سو روپے کی ہوگی۔

تو اس طریقے سے خریدی ہوئی چیز کی قیمت حتمی اور دو ٹوک ہونے کی بجائے غیر یقینی اور مشکوک ہو جائے گی حالانکہ معامل صحیح ہونے کے لیے قیمت کا حتمی اور یقینی طریقے سے طے ہونا ضروری ہے۔

چنانچہ اس لحاظ سے یہ معاملہ ایک بنیادی شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوجائے گا۔

3۔ اس معاملے میں جوئے کی عنصر بھی شامل ہے، کیونکہ یہاں فیس کے نام پر جو رقم لی جاتی ہے وہ ملنے والے اس ڈسکاؤنٹ کے مقابلے میں ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ فیس کی رقم تو یقینی ہے اور اس کے بدلے میں ملے والا ڈسکاؤنٹ احتمال کے درجے میں ہے، کیونکہ ڈسکاؤنٹ مخصوص خریداری پر موقوف ہے، اور خریداری کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ پوری ہو بھی یا نہ ہو۔ جہاں بھی ایسی صورت ہو کہ ایک طرف سے مال کی ادائیگی یقینی ہو اور دوسری طرف سے اس کا عوض غیر یقینی ہو تو وہ صورت جوئے اور قمار کی ہوتی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved