- فتوی نمبر: 8-118
- تاریخ: 22 جنوری 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
میں *** ولد ***
2014-12-20 کو میری بیوی*** دختر*** نے میری ماں کو دھکے دیے۔ یہ بات میری ماں نے گھر سے آ کر میری موبائل کی دکان پر آ کر کہی، تو میں اپنی امی کے ساتھ گھر گیا، اپنی بیوی کو بغیر پوچھے تھپڑ مارے، اور کہا ’’میرے گھر سے چلی جاؤ‘‘۔ اور وہ چلی گئی۔ کچھ عرصہ (15 دن) بعد ہماری آپس میں صلح ہو گئی۔
2015-12-10 عرصہ دس دن پہلے میں نے اپنی بیوی کو کھانا دینے کو کہا،اس نے کھانا نہ دیا، جس پر ہمارا آپس میں جھگڑا ہو گیا، جس کا مجھے بہت غصہ تھا۔ اسی دن کو میری بیوی نے میری ماں سے کہا کہ میری بہن میرے ماں باپ کے گھر آئی ہوئی ہے، میں نے ملنے کے لیے گھر جانا ہے، تو میری ماں نے اسے کہا کہ چلی جاؤ، میں گھر پر موجود نہ تھا۔ ایک دن بعد میری بیوی اپنے ماں باپ کے گھر سے واپس آئی تو میں نے اسے کہا کہ ’’میرے پوچھے بغیر میری ماں کے کہنے پر کیوں گئی، لہذا میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘، یہ لفظ میں نے دو دفعہ کہہ دیے، اور میں نے اسے گھر سے نکال دیا۔
نوٹ: جس موقعہ پر لڑکے نے یہ الفاظ کہے کہ ’’لہذا میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ اس موقعہ پر لڑکے کی والدہ اور لڑکے کا بھائی بھی موجود تھا، اور خود بیوی بھی موجود تھی۔ بیوی کا بیان یہ ہے کہ میں نے یہ الفاظ ایک دفعہ سنے ہیں، اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں کہ اس نے کتنی دفعہ یہ الفاظ کہے ہیں۔ جبکہ لڑکے اور اس کے بھائی اور اس کی ماں کا بیان یہ ہے کہ لڑکے نے یہ الفاظ صرف دو مرتبہ کہے تھے۔
نیز سائل کے بقول ان الفاظ سے کہ ’’میرے گھر سے چلی جاؤ‘‘ سائل کی طلاق کی نیت نہیں تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوہر کے حق میں دو رجعی طلاقیں ہو گئی ہیں۔ کیونکہ شوہر کے بقول 2014-12-20 کو کہے گئے الفاظ سے اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی۔ لہذا یہ الفاظ اگرچہ اس نے غصہ کی حالت میں کہے ہیں، لیکن بہر حال ان الفاظ سے شوہر کے حق میں کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ لیکن 2015-12-10 کو جو دو دفعہ یہ کہا کہ ’’لہذا تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ ان الفاظ سے دو رجعی طلاقیں ہوئی ہیں۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
فالكنايات لا تطلق بها قضاء ً إلا بنية و في الشامية: قوله (قضاءً) قيد به لأنه لا يقع ديانتاً بدون النية و لو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط. (4/ 516)
لہذا مذکورہ صورت میں میاں بیوی کے اکٹھے رہنے کے لیے عدت گذرنے سے پہلے پہلے صرف زبانی یا عملی رجوع کافی ہے۔ البتہ رجوع کرنے کا مذکورہ بالا حکم تب ہے جب شوہر اپنی بیوی کے سامنے ان الفاظ میں حلف دیدے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی قسم 2014-12-20 کو جو الفاظ میں نے آپ کو کہے تھے یعنی یہ کہ ’’میرے گھر سے چلی جاؤ، ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی‘‘۔
اور اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے مذکورہ بالا حلف نہیں دیتا، تو پھر اکٹھے رہنے کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حلف نہ دینے کی صورت میں اگرچہ شوہر کے حق میں 2014-12-20 کو کہے گئے الفاظ سے طلاق نہ ہو گی۔ لیکن عورت کے حق میں ایک بائنہ طلاق ان الفاظ سے ہو جائے گی، جس کا حکم یہی ہے کہ دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:
ففي حالة الرضا أي غير الغضب و المذاكرة تتوقف الأقسام الثلاثة تأثيراً علی نية الاحتمال و القول له بيمينه في عدم النية و يكفي تحليفها له في منزله، فإن أبی رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما. و في الشامية قوله: (بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقاً لله تعالی. قوله (فإن نكل) أي عند القاضي لأن النكول عند غيره لا يعتبر. و في الغضب توقف الأولان إن نوی وقع و إلالا. (4/ 520)
نوٹ: آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔ لہذا اگر آئندہ ایک طلاق بھی دیدی تو بیوی شوہر پر حرام ہو جائے گی۔ اور صلح کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved