• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

’’میرے مرنے کے بعد یہ پیسے میرے سگے بھائی کی اولاد کو دے دینا ‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

ہمارے نانا کے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے والدین اور بیوی کی وفات ان کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی اور ان کی اولاد بھی کوئی نہیں تھی۔ ایک سگا بھائی (ہمارے نانا) اور ایک سگی بہن بھی ان کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے اور ایک سوتیلا (باپ شریک) بھائی زندہ ہے، مرحوم کے سگے بھائی کے بچے (پانچ بیٹیاں، تین بیٹے) حیات ہیں۔ نانا کے بھائی نے فوت ہونے سے پہلے اپنے ایک دوست کے پاس پیسے (98,750 روپے) رکھوائے تھے کہ ’’میرے مرنے کے بعد یہ پیسے میرے سگے بھائی (جو ہمارے نانا ہیں) کی اولاد کو دے دینا‘‘۔ اب وہ پیسے نانا کی اولاد کو مل گئے ہیں جن میں ہماری والدہ بھی موجود ہیں تو کیا وہ پیسے ہمارے لیے جائز ہیں؟ اس کے علاوہ مرحوم کا ایک مکان بھی تھا جو باپ شریک بھائی نے لے لیا تھا کہ وہ میرا حق ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر یہ پیسے (98,750 روپے) آپ کے نانا کے بھائی کی کل میراث کے ایک تہائی (3/1) حصے کے برابر یا اس سے کم ہیں تو یہ پیسے آپ لوگوں کے لیے لینا جائز ہے اور اگر ایک تہائی (3/1) سے زائد ہیں تو زائد حصہ آپ کے نانا کے بھائی کے سوتیلے (باپ شریک) بھائی کا حق ہے، وہ چاہیں تو آپ کو دیں، نہ چاہیں تو نہ دیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں آپ کے نانا کے بھائی کا شرعی وارث صرف اس کا سوتیلا (باپ شریک) بھائی ہے، اس لیے آپ کے نانا کے بھائی کا یہ کہنا کہ ’’میرے مرنے کے بعد یہ پیسے میرے سگے بھائی کی اولاد کو دے دینا‘‘ وصیت ہے اور وصیت کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ کل وراثت کے ایک تہائی (3/1) حصے تک شرعی ورثاء کی رضامندی کے بغیر بھی نافذ ہوتی ہے اور ایک تہائی (3/1) سے زائد میں شرعی ورثاء کی اجازت ہو تو نافذ ہوتی ہے ورنہ نہیں اور وہ بھی تب جب وہ عاقل بالغ ہوں اور اجازت بھی رضامندی سے ہو، اور چونکہ مذکورہ وصیت اولاد کے لیے ہے اور اولاد میں آپ کی والدہ بھی شامل ہیں اس لیے آپ لوگوں کی والدہ بھی اس وصیت میں اپنے حصے کے بقدر شامل ہوں گی۔

در مختار مع رد المحتار (10/357) میں ہے:

(وركنها قوله: ‌أوصيت ‌بكذا ‌لفلان وما يجري مجراه من الالفاظ المستعملة فيها) ……. (وتجوز بالثلث للاجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار)

مفید الوارثین (صفحہ: 190۔ ط: ادارۂ اسلامیات، لاہور) میں ہے:

’’جب درجۂ اول ودوم کے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوا اور تیسرے درجہ میں حقیقی بھائی بھی کوئی نہ ہو تو علاتی بھائی کو وہ تمام ترکہ ملتا ہے جو ذوی الفروض سے باقی رہ گیا ہے۔

حاشیہ: باقی رہنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ ذوی الفروض موجود ہوں اور ان کو حصہ دیا جائے اور کچھ مال باقی رہ جائے۔ دوسرے یہ کہ کوئی ذوی الفروض زندہ ہی نہ ہو تو کل مال باقی رہ جائے گا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved