- فتوی نمبر: 33-272
- تاریخ: 29 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > کنائی الفاظ سے طلاق کا حکم
استفتاء
میں نے غصے میں اپنی بہن سے اپنی بیوی کے بارے میں یہ بات کہی کہ “میری طرف سے فارغ ہے “تو کیا یہ طلاق ہے؟ میری بیوی میرے پاس بھی نہیں تھی۔
وضاحت مطلوب ہے:1۔آپ کی بیوی کو ان الفاظ کا علم ہے؟ 2۔ آپ نے طلاق کی نیت سے یہ کہا تھا یا طلاق کی نیت نہیں تھی؟
جواب وضاحت:1۔ بیوی کو علم نہیں تھا، نیز طلاق کا لفظ نہیں بولا ۔2۔نیت نہیں تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً آپ نے مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے اور ان الفاظ کے کہنے کا علم آپ کی بیوی کو بھی نہیں ہوا تو جب تک بیوی کو ان الفاظ کے کہنے کا علم نہ ہو اور وہ مسئلہ نہ پوچھے اس وقت تک کوئی طلاق نہیں سمجھی جائے گی۔
تو جیہ: طلاق کے تمام کنائی الفاظ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر نیت نہ ہو تو دیانۃً طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ قضاءً بعض صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ، جن صورتوں میں قضاءً طلاق واقع ہو جاتی ہے، ان میں “میری طرف سے فارغ ہے ” کا جملہ بھی شامل ہے۔چونکہ آپ نے ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں کی اس لیے دیانۃً یعنی آپ کے حق میں تو طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن اگر یہ الفاظ بیوی کو معلوم ہو جائیں اور وہ مسئلہ پوچھے تو المراة كالقاضى کے اصول کے تحت مفتی اسے ایک بائنہ طلاق کا فتویٰ دے گا۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی کو ان الفاظ کا علم نہیں ہے اور شوہر پر بھی یہ واجب نہیں کہ وہ اسے بتائے اس لیے فی الحال شوہر کا بیوی کو رکھنا جائز ہے۔
الدر المختار مع ردالمحتار (4/516) میں ہے:
(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) و هي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب … و الكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا. قال الشامي تحت قوله: (و الكنايات ثلاث) حاصله أنها كله تصلح للجواب: أي إجابته لها في سؤالها الطلاق منه، لكن منها قسم يحتمل الرد أيضاً أي عدم إجابة سؤالها كأنه قال لا تطلبي الطلاق فإنه لا أفعله و قسم يحتمل السب و الشتم لها دون الرد و قسم لا يحتمل الرد و لا السب بل يتمحض للجواب
(قوله قضاء) قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره.
امداد الاحکام (2/460) میں ہے:
دلالت قائم مقام نیت کی ہے بلکہ اس سے اقوی ہے۔ قال في الدر: (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة لہذا دلالت حال کے ہوتے ہوئے نیت کی کوئی ضرورت نہیں بدون نیت کے بھی قضاء وقوع طلاق ہو جائے گا۔البتہ دیانۃً کنایات سے دلالت حال کے بعد بھی نیت سے ہی وقوع ہوتا ہے بدون نیت کے وقوع نہیں ہوتا جن صورتوں میں قضاء وقوع طلاق ہوتا ہے اور دیانۃً نہیں ہوتا وہاں حکم یہ ہے کہ شوہر کو تو بیوی کے ساتھ معاملہ زوجیت جائز ہے لیکن اگر عورت نے الفاظ طلاق کنایہ وغیرہ خود سنے ہیں یا کسی عادل نے اسے خبر دی تو اس کو شوہر کے پاس رہنا جائز نہیں اور نہ تمکین جائز ہے۔لانها كالقاضى لا تقبل منه الا ما يقبله القاضى وترد ما يرده
امداد الاحکام (2/409) میں ہے:
ایک مولوی صاحب نے ایک جاہل کو تعلیم دی کہ “یا امرأتی انت طلاق” تو خدا تجھ کو بہت سامان دے گا اب وہ گھر بیٹھ کر یہ وظیفہ اپنی عورت کو سناتا رہا اور عورت بھی خوب توجہ سے سنتی رہی ۔ آیا طلاق اس عورت پر واقع ہو گئی یا نہ؟
جواب:اس جاہل کی بیوی پردیانۃً اس وظیفہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی اور قضاءً واقع ہو گئی پس مرد کو تو اس عورت سے استمتا ع جائز ہے لیکن عورت کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ مرد نے میرے پاس جو وظیفہ پڑھا تھا اس کے معنی طلاق کے ہیں تو اس کو اس مرد کے پاس رہنا جائز نہیں وہ اپنے مطلقہ ہی سمجھے اور اگر اسے یہ معلوم نہیں ہو تو اس کو بتانا ضروری نہیں۔قال فى الشامية: قالت لزوجها: اقرأ علي اعتدي أنت طالق ثلاثا ففعل طلقت ثلاثا في القضاء لا فيما بينه وبين الله تعالى إذا لم ينو الزوج ولم يعلم بمعناه
مسائل بہشتی زیور(2/109) میں ہے:
کنایہ کے الفاظ کی بھی تین قسمیں بنتی ہیں۔
تیسری قسم: وہ الفاظ جن میں مطالبہ مسترد کرنے یا گالم گلوچ کا معنی نہ نکلتا ہومثلاً میں نے تجھ سے جدائی اختیار کر لی ………….. تو فارغ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved