• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میسج پر تین طلاقیں دینا

استفتاء

میرے بھانجے نے واٹس ایپ پر طلاق بھیجی ہے۔ براہ کرم یہ بتائیں کہ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اور اگر میاں بیوی دونوں راضی ہوں تو کیا وہ اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھ سکتے ہیں؟ میسج کے الفاظ درج ذیل ہیں:

Wife: You are free to go

Wife: You can divorce me

Husband: I know that from long time already

Husband: That u will do this with me

Wife: I just realized you dont deserve me

Husband: Talaak talaak talaak

Wife: Delete it , I will consider you never said it

Husband: No Way

Husband: You Ask me first for divorce

Husband: You are the one who want divorce not me

Husband: So i just follow and respect your decision

Wife:  Temur this is not joke

Husband:  Shutup kuza, its finished now, you played with me many times but now its over

ترجمہ:بیوی : تم آزاد ہو۔

بیوی:  تم مجھے طلاق دے سکتے ہو۔

 شوہر : مجھے پہلے سے پتہ تھا کہ آپ میرے ساتھ یہ کرو گی ٹھیک ہے۔

بیوی:   اچھا ابھی مجھے احساس ہوا کہ آپ میرے  لائق نہیں ۔

شوہر: طلاق ،طلاق ، طلاق ۔

بیوی : اسے ڈیلیٹ کر دو میں یہ سمجھوں گی کہ تم نے کبھی کہا ہی نہیں ۔

شوہر :  ہرگز نہیں۔

شوہر:  طلاق کے لیے تم نے پہلے مجھ سے کہا تھا۔

شوہر:  طلاق تو تم چاہتی ہو میں نہیں ۔

شوہر:  میں نے بس تمہاری  پیروی کی اور تمہارے فیصلے کی عزت کی۔

 بیوی :تیمور   یہ مذاق نہیں ہے۔

 شوہر : چپ رہو کنزہ اب یہ ختم ہو گیا ہے تم نے کئی بار میرے ساتھ کھیل کیا لیکن اب ختم ہوا ۔

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے درج ذیل بیان دیا:

شوہر کا بیان:

میں نے صرف ڈرانے کے لیے یہ الفاظ لکھ کر بھیجے تھے، میں حقیقت  میں طلاق نہیں دینا چاہتا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  جب شوہر نے  اپنی بیوی کو  واٹس ایپ پر تین  مرتبہ طلاق  لکھ کر دے دی ہے تو   اس سے بیوی  کے حق میں تینوں  طلاقیں واقع ہو چکی ہیں لہٰذا  بیوی کے لیے رجوع یا صلح کی گنجائش باقی  نہیں رہی ۔

توجیہ:ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہےاور کتابت مستبینہ غیرمرسومہ سےغصہ یا مذاکرہ  طلاق کےوقت شوہرکی نیت کے بغیر بھی بیو ی کے  حق میں طلاق واقع ہوجاتی ہے مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے مذاکرہ  طلاق کے وقت تین    طلاقوں کا  میسج کیا ہے لہذا بیوی کے  حق میں تینوں   طلاقیں واقع ہوچکی  ہیں۔

ردالمحتار(4/442)میں ہے:

قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا

نوٹ:واضح رہے کہ مستبینہ غیر مرسومہ طلاق اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے صریح ہے مگر کتابت اور پھر غیر مرسومہ ہونے کی وجہ سے نیت کے حق میں ملحق بالکنایہ ہے  جس سے نیت کے ساتھ تو طلاق  ہو ہی جاتی ہے لیکن دلالت حال معتبر ہوگی یا نہ ہو گی؟  اس بارے میں کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا مگر  درج ذیل جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دلالت حال بھی معتبر ہوگی۔ کیونکہ ان جزئیات میں موجود الفاظ بھی نہ تو صریح ہیں اور نہ کنایہ ہیں۔ اپنے مادے کے لحاظ سے صریح ہیں اور صورت کے لحاظ سے صریح نہیں ہیں۔ اسی طرح ہمارے زیر نظر طلاق مستبین غیر مرسوم میں الفاظ صریح ہیں مگر طریقہ غیر مرسوم ہے اس لیے یہ بھی اسی فہرست میں شامل ہونا چاہیے اور یہاں بھی دلالت حال معتبر ہونی چاہیے۔

درمختار مع ردالمحتار (4/455) میں ہے:

وكذا يا طال بكسر اللام وضمها لأنه ترخيم أو أنت طال بالكسر وإلا توقف على النية،

(قوله وإلا توقف على النية) أي وإن لم يكسر اللام في غير المنادى توقف الوقوع على نية الطلاق: أي أو ما في حكمها كالمذاكرة والغضب كما في الخانية. وفي كنايات الفتح أن الوجه إطلاق التوقف على النية مطلقا لأنه بلا قاف ليس صريحا بالاتفاق لعدم غلبة الاستعمال ولا الترخيم لغة جائز في غير النداء، فانتفى لغة وعرفا فيصدق قضاء مع اليمين إلا عند الغضب أو مذاكرة الطلاق فيقع قضاء أسكنها أو لا، وتمامه فيه.

درمختار مع ردالمحتار (4/455) میں ہے:

(و) يقع (بباقيها) أي باقي ألفاظ الكنايات المذكورة، فلا يرد وقوع الرجعي ببعض الكنايات أيضا نحو: أنا بريء من طلاقك وخليت سبيل طلاقك وأنت مطلقة بالتخفيف، وأنت أطلق من امرأة فلان، وهي مطلقة، وأنت طالق وغير ذلك مما صرحوا به (خلا اختاري) فإن نية الثلاث لا تصح فيه أيضاولا تقع به ولا بأمرك بيدك ما لم تطلق المرأة نفسها كما يأتي (البائن إن نواها أو الثنتين)

(قوله بالتخفيف) أي تخفيف اللام، أما بالتشديد فهو صريح يقع به بلا نية كما مرفي بابه (قوله وأنت أطلق من امرأة فلان) فإن كان جوابا لقولها إن فلانا طلق امرأته وقع ولا يدين لأن دلالة الحال قائمة مقام النية؛ حتى لو لم تكن قائمة لم يقع إلا بالنية نهر في باب الصريح عن الخلاصة فليس من الصريح وإلا لم يتوقف على النية، وعلله في الفتح بأن أفعل التفضيل ليس صريحا فافهم (قوله وهي مطلقة) أي والحال أن امرأة فلان مطلقة وإلا فلا يقع، وهذا القيد ذكره في البحر، لكن في الفتح في أول باب الصريح أنه لا فرق بين كونها مطلقة أو لا. قال: والمعنى عند عدم كونها مطلقة لأجل فلانة، يعني أن (من) في قوله من امرأة فلان للتعليل (قوله وأنت ط ل ق) قدمنا في باب الصريح عن الذخيرة تعليله بأن هذه الحروف يفهم منها ما هو المفهوم من صريح الكلام إلا أنها لا تستعمل كذلك، فصارت كالكناية في الافتقار إلى النية.

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved