- فتوی نمبر: 14-374
- تاریخ: 17 جولائی 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم چار بھائی، چار بہنیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب انتقال فرما گئے ہیں، ہماری والدہ صاحبہ حیات ہیں، دادا دادی پہلے فوت ہو چکے تھے، ہمارے والد صاحب نےترکہ میں دوگھر چھوڑے ہیں،ایک گھر کراچی میں ہے اور ایک لاہور میں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ نگینے ہیں جن کی مالیت تقریبا 40 سے 50 ہزار روپے ہے اور 20 تولہ سونا چھوڑا ہے جو ہمارے ایک بھائی کے پاس ہے، بھائی کہتے ہیں کہ ابو نے مجھے سونا دے دیا تھا ،والدہ کہتی ہیں کہ ابو نے تمہیں یہ سونا گھر کا خرچہ اٹھانے کے لئے دیا تھا( دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے ،دونوں نے اپنی اپنی بات تحریر کردی ہے جو ساتھ لف ہے) سونے کے بارے میں جو بھی فتوی دیا جائے گا کسی کو اس سے اختلاف نہیں ہوگا ۔
لاہور والے گھر میں ہم چار بھائی رہتے ہیں ،اس کے بارے میں طے ہوا ہے کہ دو بھائی لے لیں گے اور باقی بھائیوں کو اس کے پیسے دیں گے۔ کراچی والا گھر ایک بلڈر کو دیا گیا ہے ،جہاں وہ فلیٹ تعمیر کرے گااور بیچے گا۔ہم اس سے پچاس لاکھ روپے لیں گے جن میں سے 30 لاکھ نقد دے گا جو تین بہنوں میں تقسیم ہوگا اور بیس لاکھ کی مالیت کا اس بلڈنگ کے سیکنڈ فلور پرایک فلیٹ دے گا جو اپنی کراچی میں ہی رہائش پذیر بہن کو دیں گے(اس کو جو زیادہ حصہ ملے گا اس کے بارے میں والدہ کہتی ہیں کہ اس کی ذمہ دار میں ہوں ۔
ہمارے دو بھائیوں نے اپنے ذاتی پیسوں سے پلاٹ لیے تھے ،ابو نے دونوں کو چھ چھ لاکھ روپے دئیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ بعد میں یہ آپ کے حصے میں سے کاٹے جائیں گے،دونوں بھائی تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری والدہ کی خواہش ہے کہ والد صاحب کاسارا ترکہ بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم کریں اور بہنیں بھی چاہتی ہیں ،جبکہ بھائی کو کسی نے بتایا ہے کہ بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر دینا گناہ کی بات ہے، اس وجہ سے بھائی چاہتے ہیں کہ بیٹیوں اور بیٹوں میں ایک دو کے حساب سے تقسیم ہو ۔آپ شرعی طور پر بتا دیں کہ کس طرح تقسیم کیا جائے ۔
بھائی کا بیان
عرض یہ ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ 19 سال سے کام کر رہا ہوں جس میں سے 10 سال والد صاحب کی پارٹنرشپ تھی، 9 سال سے ہم الگ کام کر رہے ہیں ،علیحدہ ہونے کے بعدکچھ عرصے میں نے والد صاحب سے بعد میں نے ذکر کیا کہ آگے مستقبل میں میرا کیا ہے ؟میں تو آپ ہی کے ساتھ ہوتا ہوں اور صرف جیب خرچ لیتا ہوں، آٹھ سال سے اس سارے کام کو دیکھ رہا ہوں جس پر انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ جب تک ہم ہیں ہمارا خرچہ تم کرو گے تم اسی سے کام کرو۔ اب آپ بتادیں یہ وراثت میں آتا ہے یا نہیں؟ شروع سے اب تک انہوں نے جتنا خرچہ کہا میں نے لا کردیا، اس کام میں جو بھی نفع یا نقصان ہواوہ سب میں نے برداشت کیااور اس میں اگر کوئی کمی کوتاہی ہو تو اللہ مجھے معاف کرے۔ آپ سے بس دعاؤں کی درخواست ہے۔
والدہ کا بیان
ان سب باتوں کے علاوہ میں نے جب اپنے شوہر سے پوچھا کہ میرے لیے کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ بیس تولے سونا ہے اور یہ اولاد ہے ،یہ سب تمہارا خیال رکھیں گے ،جس نے پرچہ لکھا ہے وہ میرا خیال رکھتا ہے اور آگے بھی رکھے گا، مجھے کسی بات کی ٹینشن نہیں ہے ۔اب آپ ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے بتا دیں۔ شکریہ( والدہ صاحبہ)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- مذکورہ صورت میں 20 تولہ سونا آپ کے والد صاحب کے ترکے میں شامل ہے۔ خاص آپ کے بھائی کی ملکیت نہیں ہے۔ لیکن بھائی نے جو محنت کی ہے اسے اس کا حق المحنت (محنتانہ)عرف ورواج کے مطابق ملنا چاہیے ۔البتہ اگر تمام ورثاء اس پر راضی ہوں کہ وہ سونا صرف آپ کے بھائی کو دے دیں تو صرف ان کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
2.والد کی وفات کے بعد بیٹیوں کا ایک حصہ بنتا ہے اور بیٹوں کے دو ،دو حصے بنتے ہیں تاہم اگر سارے ورثاء عاقل بالغ ہوں اور برابر تقسیم کرنے پر دل سے رضامند ہوں تو برابر تقسیم کرنے میں گناہ کی بات نہیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved