- فتوی نمبر: 14-234
- تاریخ: 19 جون 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میری ایک بیوی دو بیٹے دو بیٹیاں ہیں جو کہ سب شادی شدہ ہیں والدین انتقال کرچکے ہیں ۔میں اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کر رہا ہوں تو مال کا کتنا حصہ اپنے لئے روک سکتا ہوں؟میں نےاپنی شادی کے تقریبا 30 سال بعد ایک مکان خرید کر اپنی بیوی کو گفٹ کیا تھا کچھ عرصہ بعد میں نےوہ مکان بیچ کر اس مکان کی رقم میں مزید رقم ڈال کر پلاٹ خریدا اور پلاٹ پر مکان تعمیر کر کے مکان دونوں بیٹوں کو ہم میاں بیوی نے ان کی ضرورت کی بنا پر دے دیا اور ملکیت دونوں کے نام کر دی ۔ یہ واقعہ تقریبا دس سال پہلے گزرا اس میں تمام وارثین متفقہ طور پر راضی ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اس کے بعد ایک دکان خرید کر بیوی کو گفٹ کی اس پر بھی تمام وارثین کو کچھ اعتراض نہیں برضاورغبت سب خوش ہیں بڑی بیٹی کی جہاں شادی کی وہ مالی طور پر مستحکم نہ تھی لہذا شادی کے کچھ عرصہ بعد بڑی بیٹی کو مکان خرید کر دیا جو کہ اس کی اشد ضرورت تھی اس مکان دینے میں خاص طور پر چھوٹی بیٹی اور تمام وارثین نے خوشی کا اظہار کیا چھوٹی بیٹی کو بھی الگ سے دینا چاہا مگر وہ کہتی ہے آپ نے بڑی بیٹی کی ضرورت پوری کی مجھے نہ ضرورت ہے نہ خواہش۔
- پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ شریعت کے مطابق ہے؟
- اب میں اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا چاہتا ہوں تو اس تقسیم کی ترتیب فرمائیں کیا لڑکوں کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رکھو ں یا سب کو برابر دو ں اور اپنے لیے کتنا رکھ سکتا ہوں؟
- اور میں اپنے حصے کی رقم وارثوں اور غیر وارثوں میں تقسیم اور وصیت کر سکتا ہوں؟ یا کہ میرے مرنے کے بعد پھر سے تقسیم کرنا ہوگی اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ؟
وضاحت مطلوب ہے:اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہے یا وصیت کرنا چاہتا ہے؟
جواب وضاحت :زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا ہے وصیت نہیں کرنا چاہتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
- اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنے کی صورت میں آپ اپنے لئے جتنا رکھنا چاہیں رکھ سکتےہیں اس میں کوئی حد مقرر نہیں کیونکہ اپنی زندگی میں آپ اپنی اولا د میں جو کچھ تقسیم کرکے دینا چاہتےہیں اس کی حیثیت ہدیہ (گفٹ) کی ہے وراثت کی نہیں۔
چنانچہ البنايہ شرح ھدایہ(7 ص 286) ميں ہے
يتصرف المالك في ملكه كيف شاء
- جب ورثاء راضی ہیں تو جس جس کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اس میں خلاف شریعت کوئی بات نہیں۔
فتاوی عالمگیری( ج 4 ص 374) میں ہے
ولو وهب رجل لأولاده فى الصحة و اراد تفضيل البعض على البعض عن ابي حنيفه رحمه الله لا باس به اذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين وعن ابي يوسف رحمه الله انه لا باس به اذا لم يقصد الإضرار وان قصد به الإضرار سوى بينهم.
- زندگی میں تقسیم کرنے کی صورت میں بہتر یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو برابر دیں اور اگر لڑکو ں کاحصہ دو لڑکیوں کے برابر دیں تو یہ بھی جائز ہے ۔
خلاصۃالفتاوی(ج 4 ص 400)میں ہے
رجل له ابن وبنت اراد ان يهب لهما شيئا فالأفضل ان يجعل للذكر مثل حظ الانثيين عند محمد رحمه الله و عند ابي يوسف رحمه الله بينهما سواء هو المختار لورود الأثار ولو وهب جميع ماله لابنه جاز في القضاء و هو آثم نص عن محمد رحمه الله هكذا في العيون ولو اعطي بعض ولده شيئا دون البعض لزيادة رشده لا باس به و ان كانا سواء لا ينبغي ان يفضل و لو كان ولده فاسقا فاراد ان يصرف ماله الى وجوه الخير و يحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لان فيه اعانة على المعصية و لو كان ولده فاسقا لا يعطي له اكثر من قوته.
اپنے حصے کی رقم اپنی زندگی میں وارثوں اور غیر وارثوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اس صورت میں مرنے کے بعد دوبارہ تقسیم کرنے کی ضرورت نہ ہوگی ۔البتہ اگر آپ اپنے حصے کی رقم کی وصیت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے وارثوں کے لئے وصیت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا شریعت نے بغیر وصیت کے ہی حصہ مقررکر دیا ہے اور غیر وارثوں کے لئے ایک تہائی تک وصیت کر سکتے ہیں ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتے۔
البنايہ شرح ھدایہ(ج 7 ص 286) ميں ہے
يتصرف المالك في ملكه كيف شاء.
تنویر الابصار (ج 10 ص 339)میں ہے
(وتجوز بالثلث للأجنبي ) عند عدم المانع ( وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليهإلا أن تجيز ورثته بعد موته )
سنن ابن ماجہ(2/906) میں ہے
عن أنس بن مالك قال إني لتحت ناقة رسول الله ﷺ يسيل علي لعابها . فسمعته يقول
( إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه . ألا لا وصية لوارث )۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved