• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میراث میں چچا اور پھوپھی کا حصہ

استفتاء

گذارش ہے کہ ہم چار بھائی اور ایک بہن تھے سب سے بڑے بھائی *** 1991ء میں وفات پا گئے تھے وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ اور بچوں میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔

اس کے بعد میرے سب سے بڑے بھائی *** کا بیٹا بھی 2013ء میں وفات پا گیا تھا وہ اپنے پیچھے جائیداد چھوڑ گیا ہے وہ غیر شادی شدہ تھا اور اس کا کوئی اور بھائی بھی نہیں ہے اس کے والد صاحب پہلے ہی 1991ء میں وفات پا چکے ہیں اور اس کے دادا بھی 1963ء میں ہی وفات پاگئے تھے اور اب پیچھے اس کی صرف ایک والدہ اور دو بہنیں ہیں اور وہ بھی شادی شدہ ہیں۔

مجھے  آپ سے پوچھنا  ہے کہ شرعی طور پر اس کی والدہ اور دو بہنوں کا حصہ نکال کر جو باقی بچے گا کیا وہ ہمیں جاوید احمد خاں، اعجاز احمد خاں، الطاف احمد خاں (سگے چچا) کو ملے گا اور کیا بہن (پھوپھی) کو بھی ملے گا اور کتنا کتنا ملے گا اور کیا شرعی طور پر حصہ لینا کوئی گناہ یا برائی تو نہیں ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں میت کے کل ترکہ کو 18 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک ایک حصہ میت کے ہر ایک چچا کو، 3 حصے والدہ کو، اور 6-6 حصے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

6×3= 18                            آفتاب احمد کا بیٹا    

والدہ        2 بہنیں           3 چچا     پھوپھی

6/1        3/2              عصبہ    محروم

1×3       4×3             1×3

3           12               3

3           6+6            1+1+1

نوٹ: میت کی پھوپھی کو کچھ نہیں ملے گا۔ نیز جو حصہ شریعت نے مقرر کیا ہے اس کے لینے میں کوئی گناہ یا برائی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved