• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

میراث میں ملے پلاٹ جس کی تقسیم نہ ہوئی ہو کی وجہ سے کیا زکوۃ لے سکتے ہیں؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بیوہ شرعی لحاظ سے مستحق زکوۃ ہے؟مگر شوہر مرحوم کے ترکہ میں سے صرف پلاٹ کا کچھ حصہ آتا ہے جس کی قیمت دو لاکھ روپے بنتی ہے ۔کیا اس بیوہ کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ جبکہ ابھی تک ترکہ تقسیم ہی نہیں ہوا یعنی پلاٹ کا حصہ ملاہی نہیں۔

وضاحت مطلوب ہے:

اس عورت کو پلاٹ میں سے حصہ ملنا یقینی ہے ؟

جواب وضاحت:

عورت کو اس پلاٹ میں سے حصہ ملنا یقینی نہیں ہے،کیونکہ اس پلاٹ پر دیور اور جیٹھ کاقبضہ ہے اس نے مطالبہ بھی کیا ہے لیکن وہ دینے سے انکار کرتے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اس بیوہ کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ،کیونکہ ترکہ کے پلاٹ میں ملنے والاحصہ اگرچہ اس بیوہ کی ملکیت میں ہے لیکن بیوہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی ۔

حاشية ابن عابدين (2/ 343)

وابن السبیل وهو کل من له مال لامعه ومنه مالو کان ماله مؤجلا او علی غائب او معسر او جاحد ولو له بینة فی الاصح

قوله ( من له مال لا معه ) أي سواء كان هو في غير وطنه أو في وطنه وله ديون لا يقدر على أخذها كما في النهر عن النقاية لكن الزيلعي جعل الثاني ملحقا به حيث قال وألحق به كل من هو غائب عن ماله وإن كان في بلده لأن الحاجة هي المعتبرة وقد وجدت لأنه فقير يدا وإن كان غنيا ظاهرا

قوله:وقال بل فی زماننا یقرالمدیون بالدین وبملاءته ولایقدر الدائن علی تخلیصه منه فهو بمنزلة العدم

فی الدر المختار:3/218

والاصل فیه حدیث علی لازکوة فی مال الضمار وهومالایمکن الانتفاع به مع بقاء الملک ولو کان الدین علی مقر ملیء او علی معسراو مفلس ای محکوم بافلاسه او علی جاحد علیه بینة وعن محمد لازکوة هو الصحیح ذکره ابن مالک وغیره لان البینة قدلاتقبل او علم به قاض سیجئی ان المفتی به عدم القضاء بعلم القاضی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved