- فتوی نمبر: 20-156
- تاریخ: 27 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے والد اپنی وفات بتاریخ: 10 جون 2020ء سے قبل اپنی موجودہ سال کی زکوٰۃ کا حساب لگا چکے تھے، اور مستحقین کو زکوٰۃ کی ادائیگی بھی کر رہے تھے۔ والد صاحب کی عادت یہ ہوتی تھی کہ وہ ہر سال زکوٰۃ کا حساب لکھ لیتے تھے کہ اس سال کی زکوٰۃ اتنی نکالنی ہے، اور جیسے جیسے زکوٰۃ نکلتی جاتی تھی ویسے اس کا اندراج (تاریخ کے لحاظ سے) بھی کرتے جاتے تھے تاکہ معلوم ہو کہ کتنی زکوٰۃ ابھی باقی اور کتنی ہو گئی ہے۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے ان کی زکوٰۃ کا حساب چیک کیا تو معلوم ہوا کہ موجودہ سال کی کل زکوٰۃ کی کچھ رقم تو ان کی وفات سے پہلے ادا ہو گئی ہے لیکن باقی زکوٰۃ اپنی زندگی میں ادا نہیں کر سکے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کی کل جائیداد کی وارثین میں تقسیم سے قبل زکوٰۃ کے اس حصے کو جو والد صاحب اپنی زندگی میں ادا نہیں کر سکے، پہلے ادا کرنا ہو گا اور زکوٰۃ ادا کرنے بعد جائیداد بینک بیلنس کی تقسیم کی جائے گی؟ برائے مہربانی جلد سے جلد رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ: والد صاحب نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں زبانی وتحریری کوئی وصیت نہیں کی تھیَ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جب آپ کے والد نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تو اس زکوٰۃ کی ادائیگی وارثین کی رضامندی پر موقوف ہے لہذا اگر تمام وارث رضامند ہوں تو پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کر کے پھر باقی ترکہ کو تقسیم کیا جائے۔ اور اگر تمام وارث رضا مند نہیں تو پہلے پورا ترکہ تقسیم کیا جائے، پھر جو وارث رضا مند ہوں صرف ان کے حصوں سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے، اور جو رضا مند نہ ہوں ان کو ان کا پورا حصہ دے دیا جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved