- فتوی نمبر: 3-76
- تاریخ: 23 جنوری 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
برادر محترم والد صاحب کا انتقال 1985 میں ہوا تھا۔ آپ نے جو ترکہ ورثہ پیچھے چھوڑا اس میں کچھ نقد رقم ، سمن آباد کا موجودہ مکان اور اردو بازار کی دکان، کچھ لکڑی کا فرنیچر اپنے پہننے والے کپڑے اور چپل اور جائےنماز وغیرہ بشمول دستاویزی ریکارڈ متعلقہ مکان و دکان۔ وفات سے چند دن بعد بھائی بہنوں کی موجودگی میں اپنی والدہ محترمہ اللہ انہیں صحت و تندرستی دے، موقع مناسب سمجھتے ہوئے ترکہ، ورثہ سے متعلق اللہ اور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے ترکہ کے استعمال میں احتیاط برتنے اور جلد سے جلد اس کی تقسیم کر دینے کے بارے میں مطلع کیا، والدہ محترمہ معاملہ فہمی کے بجائے غلط فہمی کا شکار ہو گئیں اور خاموش ہو گئی لیکن وقتا فوقتاً اپنے بہنوں اور بھائیوں کو اپنے خیالات اور دینی مسئلہ کی اہمیت سے آگاہ کرتا رہا۔
والد محترم اپنی زندگی میں ہی بڑے بھائی *** ، حق تعالیٰ انہیں تندرست و توانا رکھے، کو دنیاوی اور کاروباری معاملات میں خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ اور پر اعتماد تھے۔ اس لیے اردو بازار کی ایک دکان اپنی ہی زندگی میں فروخت کر دی تھی۔ اس کی فروخت سے ملنے والی رقم میں سے لوگوں کو جو دین تھا اسے چکایا ماسوائے اپنی بہو یعنی میرے بیوی کے دین کے جو بقول میری بیوی کے ساڑھے چھ تولے سونے کے زیورات تھے۔ جو زیورات سونا ہی کی شکل میں واپس، لوٹانے کے وعدہ پر لیے گئے تھے، اس کا ذکر والد محترم نے اپنی ڈائری ( نوٹ بک ) میں کر دیاتھا، یہ ڈائری اور دیگر کاغذات بمتعلق جائیداد وغیرہ کا ریکارڈ بھائی جان ( ***) ہی کے پاس ہے۔
96۔ 1995ء کے دوران ہمارے سب سے بڑے بھائی *** ( مرحوم ) کو بنک کی ادائیگی کرنے کے لیے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کی اشد ضرورت پڑ گئی، جس کے باعث اردو بازار کی دکان جس پر اس وقت بھی تمام وارثین کو شریعت اسلامی کے مطابق حصے دیدینے کا زبانی فیصلہ طے پا گیا۔ فروخت کا معاملہ بھائی جان *** کے سپرد تھا۔ اردو بازار ہی کے ایک صاحب کے ذریعے، اردو بازار سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے ساتھ بائیس لاکھ روپے پر دکان کی فروخت کا سودا طے پایا۔ وہ صاحب کی رقم لے ک*** *** بھائی جان کے پاس رات کو عشاء کی نماز سے قبل پہنچے ( مغرب اور عشاء کے درمیان ) جہاں تک مجھے یاد پڑرہا ہے، لیکن انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اسلام آباد سے ہمارے بھائی ظفر صاحب نہیں آ سکے، لہذا بیعانہ لینا ابھی مناسب نہیں۔
جب میں اپنے بچوں کے ساتھ گھ*** پہنچا تو *** بھائی جان نے اس تمام واقعہ سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اقبال اباجی کی اس نشانی کو بیچتے ہوئے میرا دل دکھ رہا تھا۔ اس لیے میں نےا نہیں ٹال دیا، اب اس دکان کو تم بچا لو اور سب سے پہلے بھائی صاحب *** ( مرحوم ) کو حصے کے پیسے دیدو۔ میں نے کہا بھائی جان میرے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں، بھائی جان نے کہا اپنے ساتھ کسی ( بھائی وغیرہ ) کو ملا لو، اس بات پر سب سے پہلے میں نے *** بھائی جان ہی سے درخواست کی، انہوں نے فرمایا کہ میں تو ملازمت کر رہا ہوں، دوسرے میرے اولاد بھی نہیں ہے، اس کی مجھے ضرورت نہیں۔ پھر میں نے سب سے چھوٹے بھائی سے بات کی، ارشاد عالم نے بھی معذوری ظاہر کر دی، آخر میں اسلام آباد بھائی *** سے ٹیلی فون پر بات کی، انہوں نے رضامندی ظاہر کی لیکن یہ کہا کہ تم میری طرف سے ایک لاکھ روپے کسی سے ادھار پکڑ لو۔ دو ماہ بعد اسے لوٹا دیں گے۔ بہر صورت پکڑ دھکڑ کر کے بھائی میاں *** کے حصہ کی ادائیگی مبلغ دو لاکھ چھپن ہزار چھ صد چھیاسٹھ روپے بمورخہ 23 دسمبر 1996 کو کر دی گئی تھی لیکن تادم وفات بھائی صاحب *** ( مرحوم ) نے اور نہ ہی *** بھائی جان نے اقرار نامہ رقم وصولی پر اپنے اپنے دستخط ثبت فرمائے۔ بعینہ دو بہنوں راحت خانم اور فرحت خانم اور تیسری بہن سروری بیگم کو ادائیگی رقم حصہ دکان بارے میں یہی معاملہ وقوع پذیر ہوا۔ دکان کی فروخت، حصوں کی تقسیم اور دکان کے حق ملکیت، سمن آباد کے مکان ( 415 مین روڈ ) کی بھی فروخت، اس سے حاصل ہونے والی رقم میں سے دکان کے باقی وارثان جنہیں ان کے اپنے اپنے حصہ کی رقم ادا نہیں کی جاسکی، انہیں اس مکان کی فروخت سے ملنے والی رقم میں سے ادائیگی کا فیصلہ ہوا۔
دو فروری 2002 کو *** بھائی جان کی ریٹائرمنٹ ہونے پر ان کا دکان کی ملکیت میں شرکت کا فیصلہ ان کی اپنی خواہش پر ہوا جس کو سب نے منظور کیا اور یہ بھی ذکرکیا گیا کہ جب تک مکان سمن آباد فروخت نہ ہو سکے تو باقی دکان کے وارثان کو، دکان کا کرایہ مقرر کر کے، کرایہ کی ماہانہ رقم کو شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا فیصلہ، اور اس کے علاوہ دیگر فیصلے بھی تحریری طور پر طے پائے گئے۔ ( نقل نمبر1،2 ملاحظہ کی جاسکتی ہے )۔ 21 نومبر 2004ء کو پھر ایک اجلاس بلا کر فیصلہ کیا گیا کہ دکان *** اور *** کی حق ملکیت میں رہے گی اور حصوں کی ادائیگی سابقہ قیمت فروخت بائیس لاکھ روپے کے مطابق ہوگی۔ ( فیصلہ کی نقل نمبر 3 بمع دستخط حاضرین و گواہان ملاحظہ کر سکتے ہیں )
برادرم محترم زکریا صاحب والد محترم کی وفات سے لے کر آج دم تحریر ہذا، دکان اور مکان کے بارے مختلف زبانی و تحریری فیصلے ہوتے رہے، کبھی دستخط ہوئے اور کبھی نہ ہوئے۔ تحریر کنندہ ہذا کو اس دوران جو مالی نقصان ، ذہنی اذیت اور دلی صدمات کو برداشت کرنا پڑا جس کی بڑ ی وجہ میری آبائی رہائش واقع مکان سمن آباد کو بار بار یہ کہہ کر خالی کروایا گیا کہ دکان حاصل کر لینے کے بعد اب تمہارا اس سمن آباد کے مکان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، حالانکہ مجھے اس سلسلہ میں کہنے کے باوجود کوئی تحریر نہ دی گئی پھر بھی میں نے اپنے بہن بھائیوں پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں میری پکڑ نہ ہوجائے، میں نے مکان ( اپنا زیر قبضہ مکان ) کا رہائشی حصہ چھوڑ کر کرایہ کے مکان میں منتقل ہوگیا۔ اس بارے میں تحریری تجویز، تجاویز آپ نے ملاحظہ کرلی ہیں۔
عصر حالات کی ستم ظریفی کہ عرصہ سات سال کے دوران کاروبار تنزلی کا شکار رہا ہے۔ مالی کمزوریوں او*** مکان کے فروخت نہ ہونے ( جس کی وجوہات جو دانستہ طور پر پیدا کی گئی ہیں ) کے باعث دکان کے باقی وارثان کو ان کے حصوں کی ادائیگی نہ ہو پائی اور مالی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی تھی۔ میں نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ میرے ذمہ جو دکان سے متعلق باقی وارثان کے حصے رہتے ہیں جن میں والدہ محترمہ، *** بھائی جان، ارشاد عالم اور چھوٹی بہن شاہدہ خانم شامل ہیں اور اپنی اس بیوہ بہن کا مقروض بھی ہوں، شاید باری تعالیٰ اس وجہ سے مجھے سے ناراض ہیں جو میری آخرت کے لیے سراسر خسارہ کی بات ہے اور مکان کے بکنے کی نوبت نہیں آرہی کاروباری لوگوں کو دین دار بھی ہوں، لہذا ان سب سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اور راستہ یہی ہے کہ دکان کو فروخت کردیا جائے اس نیک نیتی کے ساتھ کہ سابقہ وارثان دکان جو حصہ لے چکے ہیں انہیں بھی اس بنیاد پر شامل کر لیا جائے کہ وہ میرے اس احسن اقدام کو سراہتے ہوئے دل کھول کر میرے ساتھ مالی معاونت اس طرح کردیں کہ ان پر بوجھ بھی نہ ہو اور میرا قرض ( کاروباری ) بچوں کے کاروبار کے لیے وافر مقدار رقم کی مل جائے، کیونکہ دکان کی موجودہ، مجوزہ فروخت سے سابقہ اور موجودہ وارثان کو سابقہ قیمت فروخت کے مقابلہ میں اب تقریباً بیس بیس لاکھ زیادہ ملیں گے، جس کا سبب محض میری طرف سے دکان کو نہ بکنے دینا اور اسکی تعمیر نو اور قانونی موشگافیوں سے بچا کر رکھنا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ جب میں نے اپنی تجویز دی کہ دکان بیچ ک*** کے مکان کو از سر نو تعمیر کیا جائے کہ گراؤنڈ فلور پر دکانیں بنالی جائی اور اوپر رہائشی گھر پانچوں بھائیوں کے بن جائیں ہمراہ والدہ محترمہ کے اور تمام بہنوں ( 4 ) کو حصے دے کر مکان اور دکان سے فارغ کر دیا جائے۔ اس طرح رہائش کے ساتھ ساتھ کم از کم میرے بچوں کو کاروبار کرنے کے لیے جگہ بھی میسر ہوگی۔ میری اس تجویز کو سب بہنوں نے *** بھائی جان نے بھی سراہا لیکن اپنی تجویز بھی دی کہ دکانوں سے بہتر ہے کہ ایک بڑا سا ہال بنا کر بینک کو کرایہ پر دیدیا جائے جس سے ماہانہ انکم کم از کم یعنی ماہانہ کرایہ ایک لاکھ روپے مل سکتا ہے، جسے پانچوں بھائیوں میں برابر تقسیم کر دیا جایا کرے گا۔ جو مستقل آمدنی ہوگی، جب کہ دکانیں بنا کر کرایہ پر دینا یا خود کاروبار کرنا رسک لینے والی بات ہے، نامعلوم کا روبار چلتا ہے، دکانیں کرایہ پر چڑھ سکتی ہیں کہ نہیں؟ چڑھ بھی جائیں تو کرایہ وصول کرنا بھی پریشان کن بن جاتا ہے۔ بظاہر یہ تجویز بہت مفید اور خوبصورت لگتی ہے، صرف ان بھائیوں کے لیے مفید ہے جو اس وقت بھی خود یا ان کی اولاد مصروف کاروبار ہیں سوائے میرے اور میری اولاد کے ، کہ اگر دکان فروخت کر دی جاتی ہے تو ان کے پاس اور میرے پاس نہ کاروبار رہے گا نہ ہی ذریعہ آمدن ۔ کیونکہ اس وقت بھی میرے اور بڑے بیٹے جاوید کا گھریلو خرچ تقریباً تیس ہزار روپے ماہواری ہو جاتا ہے۔ بجلی، سوئی گیس اور پانی کے بل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ تو ہال بنانے کی صورت میں میرے لیے مالی دشواریوں کی باتیں تھی، ایک مستقل قباحت ہال بنانے کی شکل میں یہ رہے گی کہ مستقبل قریب یا بعید میں ( اللہ نہ کرے ) ہم موجودہ چار بھائیوں ( جناب ***، جناب ***عالم، ***، اور ارشاد عالم ) اللہ سب کو قائم دائم رکھے، کی دنیا میں عدم موجودگی کے باعث ہال سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو اس کا تدارک دشوار بھی ہو سکتا ہے اور سہل بھی جو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ( نقل نمبر 4 ملاحظہ ہو جس پر میرے تحفظات ہیں )
چونکہ اس وقت مرحوم اختر بھائی میاں کی اولاد ( لڑکے ) ماشاءاللہ بہت بہتر انداز سے کاروبار کر رہے ہیں اور اسی طرح برادر اصغر ارشاد عالم کے بیٹے ،بھائی صاحب *** سرور صاحب کے بیٹے بھی ماشاء اللہ ملازمت سے وابستہ بہت بہتر خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں، *** بھائی جان اللہ کی مشیت کے تحت بے اولاد ہیں لیکن مرحوم اختر بھائی کے بیٹوں کے ساتھ کاروبار میں شریک ہیں۔ ان باتوں کو مقصد صرف اور صرف یہ بتلانا ہے کہ دکان فروخت کرنے کے بعد مجھے اور میرے بیٹوں کے لیے کسی قدر معاشی اور معاشرتی مشکلات پیدا ہو جائیں گی جن کا فوری تدارک میری سمجھ سے باہر ہے۔
متذکرہ بالا بیان جو مختصراً آپ کے لیے تحریر میں لانا پڑا۔ صرف اس لیے کہ آپ درج ذیل نکات کو سمجھ کر کتاب و سنت (شریعت اسلامیہ ) کی روشنی میں مفصل جواب عنایت کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں گے۔
نکات: 1۔ متوفی کے ورثہ کی تقسیم کے لیے کیا کوئی شرعی حد مقرر ہے؟ یعنی مدت ایام۔
2۔ متوفی کی وراثت کو وارثین اپنی مرضی سے اور ایک دوسرے کی اجازت لیے بغیر ، بتائے بغیر مطلع کیے بغیر کسی بھی صورت میں اپنے استعمال میں لانے کے مجاز ہیں یا نہیں؟ ہیں تو اس کے لیے شرعی کونسی صورت ہو گی؟
3۔ اگر متوفی اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں، اولاد میں سے کسی ایک کا تعین، تقرر کر گیا ہو اور کیش رقم بھی اس کے سپرد کی گئی ہو تو ان دونوں امور یعنی تقرری اور کیش رقم کی شرعی نوعیت کیا ہوگی؟ وہ امانت کے زمرہ میں آئےگی یا نہیں؟
4۔ *** بھائی جان پہلے متوفی ( والد محترم ) کے زبانی مقرر کردہ مختار تھے، بعد ازاں 1996ء میں انہیں قانونی طور پر مختار عام کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ کیا متوفی کا اپنی زندگی میں کسی ( بھائی جان *** ) کو دی جانے والی ذمہ داریاں اور بعد میں ریاستی قانون کے تحت ذمہ داریوں کا ملنا یکساں ہے یا کوئی فرق پیدا ہو جائے گا؟ اگر فرق ہو جائے گا تو کتاب و سنت کی روشنی میں کیا کہیں گے؟ یعنی کیا یہ دونوں قسم کی ذمہ داریاں آخرت میں جزاء اور سزا کے پلڑے میں آئیں گی؟
5۔ کیا زید اور بکر کا دکان کی سابقہ قیمت فروخت کے مطابق 1996 تا 1998 یا ما بعد اپنے اپنے شریعت کے مطابق حصے لے لینے کے بعد جب دکان مجبوراً بیچی جارہی ہو تو زید اور بکر کا پہلے حصے کی رقم وصولی کو ادھار یا قرض کا نام دے کر نئی قیمت فروخت کے مطابق دوبارہ حصوں کی وصولی کرنا ( وہ بھی عرصہ دس سال بعد ) اور اپنا حق جتانا، اس کی شرعی اور اخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟
6۔ بڑے بھائی مرحوم *** ( باری تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ) کا اپنے حصہ کی رقم لے کر وصولی کے کاغذ پر دستخط نہ کرنا اور وجہ رقم دہندہ کو، نہ بتانا، *** بھائی جان کو معلوم ہوتے ہوئے بھی رقم دہندہ کو نہ بتانا اور پھر بارہ تیرہ سال بعد دکان کی دوبارہ فروخت کے موقعہ پر پوشیدہ بات کو ظاہر کرنا، ۔۔۔ اسلامی شریعت میں یہ سب کچھ کیا کہلائے گا؟ جب کہ اس روپے دوکان کے خریدار یعنی رقم دہندہ کو لاکھوں کا نقصان ہوا اور ذہنی کوفت نے مسلسل پیچھا کئے رکھا۔ حتے کہ زکوٰة کا مستحق ہونا پڑا۔
7۔ ان تمام معاملات میں خریدار دکان، رقم دہندہ شریعت کے مطابق کہاں، کہاں اور کیسے کیسے اللہ تعالیٰ کا مجرم ہوا؟ تاکہ توبہ اور معافی مانگ کر اپنی بخشش کروا سکے۔
نیز مجھے جو نقصان اپنے بھائیوں اور بہنوں کے غیر ذمہ دارانہ، غلط بیانی کے باعث اٹھانا پڑا کیا اس کے ازالہ کے لیے دکان کی قیمت فروخت یا ان کے حصوں میں سے جو وہ دوبارہ طلب کر رہے ہیں، اس میں سے کیا مشترکہ طور پر کچھ رقم لینے کا مجاز ہوں یا نہیں؟ صرف ان ورثاء سے جو اپنا اپنا حصہ لے چکے تھے۔
کیا میں دکان کی فروخت اس وقت تک روکے رکھنے کا مجاز ہوں جب تک کہ میں اپنا نقصان جو محض ان کی وجہ سے ہوا،
تفصیلات یہ متعلق وارثان فوت شدہ اور باحیات:فوت شدگان: 1۔ والدہ محترمہ ( سوتیلی ) *** 1989ء تقریباً۔
2۔ ہمشیر*** ( پیدائشی معذور تھی، اس لیے قانونی دستاویز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان کا انتقال 2005ء میں ہوا۔
3۔ برادر محترم ( سب سے بڑے بھائی ) *** آزاد کا انتقال 2008ء میں ہوا۔ انہیں دکان کا شرعی حصہ نقد دیدیا گیا تھا لیکن دستخط کرنے سے ٹال مٹول کرتے رہے۔
زندہ وارثان
4۔*** سرور صاحب، 5۔ ***، 6۔ ***، 7۔**، 8۔ ہمیشرہ**، 9۔**، 10۔ **( ان تینوں ہمیشراؤں نے دکان سے اپنا اپنا شرعی حصہ لے لیا ہوا ہے۔11۔ **، انہوں نے اپنا حصہ لیا نہ دیا گیا ہے ابھی تک۔12۔ والدہ محترمہ ( حقیقی ) انہوں نے اپنا حصہ لیا نہ دیا گیا ہے ابھی تک۔
1۔ *** اور *** نے *** کے حصہ 256666 روپے میں سے جتنا بینک کا قرضہ تھا *** کی طرف سے بینک کو واپس کیا اور باقی تقریباً 30000 روپے بذریعہ *** *** کو دے دیئے جس کا *** کے بیٹے اقرار کرتے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ کہتی ہیں وہ رقم انہوں نے وراثت میں سے حصہ کے طور پر نہیں بلکہ قرض کے طور پر دی تھی۔
2۔ جن بہنوں نے دکان سے اپنا حصہ وصول کیا ہے وہ اب کہتی ہیں کہ ہم نے وہ بطور قرض لیا تھا۔
خلاصہ سوال: *** ساقی کا انتقال ہوا۔ انہوں نے ترکہ میں چند دکانیں اور ایک مکان چھوڑا ہے۔ دکانوں میں سے اردو بازار والی دکان پر وہ خود کاروبار کرتے تھے جبکہ باقی دکانیں کرایہ پر تھیں۔
*** میں انہوں نے سارا کاروبار بڑے بیٹے *** کے سپرد کر دیا تھا۔ *** نے دکان کے کاغذات بینک میں رکھوا کر تھوڑی سی رقم قرض لی مگر وہ قرض ادا نہ کر سکے تو بینک نے دکان نیلام کرنا چاہی۔ *** ساقی نے علم ہونے پر *** پر ناراضگی کااظہار کیا اور بینک سے دکان چھڑانے کا کہا۔ دکان تعلقات کی بنیاد پر ایک عرصہ تک بچی رہی لیکن آخر کار بینک نے نیلامی کا تہیہ کر لیا۔ جس پر سارے ورثاء میں باہم اتفاق ہوا کہ دکان دو وراث *** اور *** 22 لاکھ میں خرید لیں۔ وہی بینک کو بھی ادائیگی کریں گے اور تمام ورثاء کو بھی دکان میں سے ان کے حصوں کی ادائیگی کریں گے۔ لہذا دونوں نے اول بینک کا قرضہ اتارا پر *** کے حصہ میں بینک کو ادائیگی کے بعد جتنا باقی بچتا تھا انہیں دیا۔پھر ان دونوں نے سوائے ایک بہن کے باقی بہنوں کو حصہ دیا جبکہ والدہ ، ایک بہن اور باقی بھائیوں کو حصہ وہ تاحال ادا نہیں کر سکے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ دکان کی فروخت کا مذکورہ معاہدہ 1996ء میں ہوا تھا۔ اس وقت دکان کی قیمت 22 لاکھ روپے تھی لیکن اب 2 سے 3 کروڑ تک ہو چکی ہے۔ *** اور اہلیہ *** کا انتقال ہو چکا ہے۔ اور جن بہنوں نے حصہ وصول کیا ہے وہ اور *** کی بیوہ کہتی ہیں کہ *** اور *** نے ہمیں جو کچھ دیا وہ بطور قرض کے دیا تھا۔ وراثت میں سے شرعی حصہ نہیں تھا۔
1996ء سے لے کر آج ورثاء نے مختلف مواقع پر بہت سے زبانی اور تحریری معاہدے کئے۔ جن کے مطابق کبھی سارے دکان میں شریک ہو جاتے اور کبھی الگ ہو جاتے مگر 2004 میں تمام ورثاء نے ایک بار پھر اس پر اتفاق کیا کہ دکان *** اور *** کو فروخت ہوچکی ہے اور اس کی قیمت 22 لاکھ ہی رہے گی۔ اگر چہ انہوں نے بعد میں بھی بہت سے معاہدے کیے ہیں۔
دوسری طرف مکان بھی بے انتہاء مہنگا ہو چکا ہے۔ اب مکان کے بارے میں دوسرے ورثاء کہتے ہیں کہ ہمیں دکان میں سے
موجودہ قیمت کے مطابق حصہ دو، نہیں تو اتنے عرصہ کا کرایہ ادا کرو۔
نیز مکان میں سے *** کو یہ کہہ کر بے دخل کیا گیا کہ تم نے دکان لے لی ہے۔ مگر اب بعد میں دوبارہ شریک ٹھہرا لیا گیا ہے۔ اور چونکہ مکان اچھی جگہ واقع ہے اس لیے سب چاہتے ہیں کہ اسے ہال بنا کر کرایہ پر چڑھا دیا جائے اور اس کے اوپر رہائشی پلاٹ بنا لیا جائے۔
*** ساقی نے****کی بیوی سے سے ساڑھے چھ تولے سونے کے زیورات بطور قرض لیے تھے۔ اور زیورات ہی کی شکل میں واپسی کا کہا تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنی ڈائری میں بھی کیا ہے اور وہ ڈائری ایک بیٹے *** کے پاس موجود ہے۔
کرایہ پر چڑھی ہوئی دیگر دکانوں کا کرایہ اہلیہ *** وصول کرتی تھیں، جس سے وہ اپنا خرچہ نکالا کرتی تھیں۔ اب یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان کا کرایہ کون وارث وصول کیا کرے۔
ایک مسئلہ مزید در پیش ہے کہ چونکہ اب مکان اور دکان و دیگر جائیداد کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے اورتمام وارثوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ساری جائیداد خرید کر دوسروں کو ادائیگی کر سکیں لہذا اس پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ کونسی چیز پہلے فروخت کی جائے۔ دکان یا مکان۔ دونوں طرف والے چاہتے ہیں کہ دوسری چیز پہلے فروخت ہو تاکہ انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جب سب بہن، بھائیوں نے باہمی اتفاق سے دکان*** اور *** کو فروخت کر دی ( جیسا کہ 2004 والے معاہدہ سے بھی واضح ہے ) تو دکان ان دونوں کی ہو چکی اب دکان میں باقی ورثاء کا حصہ نہیں ہے۔
دکان کی قیمت 22 لاکھ روپے ہی ہے البتہ جن وارثین کو آج تک حصہ نہیں ملا اور وہ پرانی قیمت کے مطابق حصہ لینے پر راضی نہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ 1996 میں ان کے حصہ کے عوض جتنی چاندی آتی تھی آج اتنی چاندی وصول کر لیں یا اس چاندی کی مالیت کے بقدر ڈالر وصول کرلیں ( واضح رہے کہ چاندی یا دوسری کرنسی وصول کریں۔ اس کے روپے نہیں ورنہ سود ہوجائے گا)
2۔ *** کی بیوی اور وہ بہنیں جنہوں نے رقم وصول کی اور کہتی ہیں” کہ انہوں نے وہ رقم بطور قرض وصول کی تھی” اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ اس کو اپنا حصہ سمجھ سکتی ہیں۔
3۔ 1996ء سے لے کر اب تک کا دکان کا کوئی کرایہ نہیں۔
4۔ دکان کے بارے میں ہر قسم کا فیصلہ کرنے میں *** اور *** خود مختار ہیں، جو چاہیں باہمی رضامندی سے فیصلہ کریں۔
5۔ مکان اور کرایہ پر چڑھی ہوئی دیگر دکانوں میں تمام ورثاء بشمول***اور *** شریک ہیں۔
6۔ دکانوں سے حاصل ہونے والا کرایہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔
7۔*** کی اہلیہ سے قرض لیے ہوئے زیور کا ذکر جب *** ساقی نے اپنی ڈائری میں کیا ہوا ہے تو ان کے ترکہ میں سے اس قرض کو بھی ادا کیا جائے گا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved