• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث سے متعلق ایک سوال

استفتاء

ایک عورت کا انتقال 2010ء میں ہوا۔ میت کے وارثوں میں شوہر(جو کہ اُس وقت ذہنی طور پر معذور تھے) دو سگی بہنیں اور بھتیجے موجود تھے۔  والدین کا ان سے پہلے انتقال ہوگیا تھا، مرحومہ نے ایک بھتیجے کو منہ بولا بیٹا بنایا تھا جو اُن کے پاس ہی رہتا تھا۔ مرحومہ نے اپنی زندگی میں ہی اپنا زیور اور تقریباً استعمال کی چیزیں منہ بولے بیٹے اور بہو کو بطور ملکیت دے دیں تھیں۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے ذاتی استعمال کی چیزیں منہ بولے بیٹے اور بہو نے اپنے استعمال میں لے لیں۔ ڈیڑھ سال بعد اُن کے شوہر اور پھر بعد میں ایک بہن کا بھی انتقال ہو گیا۔بہن کے وارثوں میں 2بیٹے ہیں، شوہر کا ان سے پہلے انتقال ہو گیا تھا۔  اب وراثت کی تقسیم کا علم ہوا۔ اب اُن کی ایک سگی بہن جو بسترِ مرگ پر ہیں  اور ان کی ذہنی حالت بھی درست نہیں۔ اور منہ بولے بیٹے سمیت پانچ بھتیجے ہیں۔

یہ سوال منہ بولے بیٹے کی بیوی کا ہے کہ وہ چیزیں ہم نے استعمال کر لیں۔ اب ہم کیا کریں؟

زیادہ تر چیزیں اپنی اصلی حالت میں بھی اب موجود نہیں سوائے کچھ برتن اور سلائی مشین کے۔ جبکہ میت کی بیماری اور کفن دفن کا سارا خرچہ منہ بولے بیٹے نے ہی کیا تھا۔

یہ سب لاعلمی میں ہوا۔ اب بتائیں ہم کیا کریں۔ کیا صرف توبہ تائب ہونا کافی ہے؟

نوٹ: ہم پنڈی میں رہتے ہیں مرحومہ کے شوہر کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ ان کے اپنے کوئی بھائی ،بہن نہیں تھے  یہ اکلوتے تھے۔ ان کی زندگی میں ان کی پھوپھی کے بچے ان سے ملنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ لیکن جب سے وہ فوت ہوئے ہیں، انہوں نے بھی آنا چھوڑ دیا ہے۔ الغرض اس وقت مرحومہ کے شوہر کے وارثوں میں کون کون ہیں مثلاً چچا یا ان کی اولاد یا ان کے والد کے چچا یا ان کی اولاد ؟اس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحومہ اپنی زندگی میں جو چیزیں اپنے منہ بولے بیٹے یا اس کی بیوی کو مالکانہ بنیاد پر دے چکی ہیں وہ چیزیں تو انہی کی ملکیت ہیں، ان میں کسی اور کا کوئی حق نہیں  اور جو چیزیں مرحومہ کی وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھیں وہ تمام ورثاء کا حق ہیں۔ لہٰذا شرعی لحاظ  سے مرحومہ کے ترکہ یا اس کی قیمت کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ترکہ یا  اس کی قیمت کے 7حصے بنائیں گے جن میں سے  مرحومہ کے شوہر کو تین(3) حصے، مرحومہ کی جو بہن زندہ ہے اس کو 2حصے اور مرحومہ کی فوت  ہونے والی بہن کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

نوٹ: اگر ورثاء انہی استعمال شدہ چیزوں کے لینے پر راضی ہوجائیں تو وہی چیزیں تقسیم کی جائیں۔ ورنہ جس حالت میں مرحومہ ان چیزوں کو چھوڑ کر گئی تھی اس حالت کی قیمت تمام ورثاء کو شرعی حصوں کے بقدر دی جائے۔

مذکورہ صورت میں فوت ہونے والی بہن کے بیٹوں کو  یا تو ان کا حصہ دے دیا جائے یا ان سے معافی تلافی کرا لی جائے۔ اور جو بہن زندہ ہے اور اس کی ذہنی حالت درست نہیں، ان کا حصہ اسی کو  دینا ضروری ہوگا، نہ تو وہ خود اپنا حصہ معاف کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کی اولاد وغیرہ اور شوہر کا حصہ فی الحال آپ کے پاس محفوظ رہے گا، اگر شوہر کے ورثاء کا پتہ چل جائے تو ان کو ان کا حصہ دے دیا جائے یا ان سے معافی تلافی کرالی جائے۔ اور اگر کوشش  کے باوجود ان کے ورثاء کا پتہ نہ چل سکے تو دوبارہ پوچھ لیا جائے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

6=7                                                                             

شوہر2بہنیں5بھتیجے
2/13/2عصبہ
34محروم
3-22

 

2           (بہن)          2                                                                     

2بیٹے

1+1

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved