• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث کی تقسیم سے پہلے مشترکہ کمائی کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں تین بھائی ا قبال ،اختر علی، شیر عالم ،والد صاحب کے فوت ہونے کے بعد تینوں اکٹھے رہتے تھے، ان میں ایک بھائی اقبال فوت ہو گیا، اس فوت شدہ بھائی کے دو بیٹے ہیں وہ بھی اپنے چچاؤ ں کے ساتھ رہتے ہیں۔ زندہ دو بھائیوں میں سے ایک بھائی باہر ملک میں کام کرتا ہے اوردوسرابھائی ماسٹر ہے یعنی اسکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے بعد میں فوت شدہ بھائی کا بیٹا بھی باہر ملک چلا گیا، وہ بھی وہاں کام کرتا رہا یعنی سارے اکٹھے کماتے رہے اور اکٹھے خرچ کرتے رہے ۔اسی اثناء میں انہوں نے زمین گیارہ کنال دس مرلے خریدی۔ اب یہ زمین آپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،لہذا تقسیم کا کیا طریقہ کار ہو گا ؟جواب عنایت فرمائیں۔

یاد رہے کہ جو زمین خریدی اس میں زیادہ رقم ایک بھتیجے نے دی ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: فوت شدہ  بھائی کا دوسرا بیٹا کیا کرتا ہے؟

جواب وضاحت: وہ بھی کام کرتا ہے اور سب کے ساتھ شریک ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے عرف  اور معاشرے میں جب چند بھائی اکٹھے رہ رہے ہوں اور ان کا خرچہ بھی مشترک ہو پھر چاہے ان کی اولاد جوان ہو کر وہ بھی کمانے لگ جائیں تو یہ سب مال کمانے والوں کا مشترک سمجھا جاتا ہے، چاہے کسی نےکچھ زیادہ کمایا ہے یا کم کمایا ہے۔ مذکورہ صورت بھی اسی قسم کی ہے ،لہذا یہ زمین سب کمانے والوں میں برابر تقسیم ہو گی۔

حاشیة ابن عابدین(325/4)

مطلب اجتمعا فی دار واحدۃ واکتسبا ولا یعلم التفاوت فهو بینهما بالسویة 
تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة وکذا لو اجتمع إخوۃ یعملون فی ترکة أبیهم ونما المال فهو بینهم سویة ولو اختلفوا فی العمل والرأی ا ہ

امداد الفتاوی(515/3) میں ہے:

سوال:         ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی فاروقی(349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:

تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة الخ

چند سطروں کے بعد لکھا ہے:

فقیل هی للزوج وتکون المرأة معینة له الااذا کان لها کسبا علی حدة فهو لها وقیل بینهما نصفان۔(والسلام)

الجواب:       میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا  کسب  ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved