- فتوی نمبر: 14-192
- تاریخ: 04 جون 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > منتقل شدہ فی خاندانی معاملات
استفتاء
زید کے مرنے کے بعد اس کی بیوی اپنی میکے چلی گئی تھی ،جاتے ہوئے وہ اپنا سامان جو کے زیورات اور ایسا ہی اور کچھ تھا چھوڑ گئی، جس کو زید کی والدہ یعنی لڑکی کی ساس نے سنبھال لیا ،اس کے بعد زید کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا مرنے سے پہلے زید کی والدہ نے زید کی بہن کو وہ سامان دیا اور کہنے لگی کہ یہ زید کی بیوی کو دے دینا ،اس سامان میں ایک دس لاکھ کی گھڑی بھی تھی جو زید کی ہی تھی، بیوی کی ملکیت نہیں تھی۔
اب یہ پوچھنا ہے کہ زید کی ہمشیرہ جس کے قبضے میں یہ سارا سامان ہے جس میں زیور اور گھڑی اور کچھ دوسری چیزیں ہیں وہ اس کا کیا کرے؟گھڑی بیوہ کے شوہر کی ہے اورجو زیور ہے وہ زید نے اپنی بیوی کو شادی پر دیا تھا، زید کی بہن کو اس کی کوئی حاجت نہیں ،وہ یہ چاہ رہی تھی کہ اس سارے سامان کو صدقہ کردیں ،تو کیا وہ صدقہ کر سکتی ہے؟؟ہاں زید کا ایک بیٹا ہے، زید کے بہن بھائی سب صاحب حیثیت ہیں وہ کسی چیز کو اپنے پاس رکھنے میں ذاتی دلچسپی نہیں رکھتے۔
نوٹ : گھڑی زید کی تھی اور زید کی وفات کے بعد اس کی والدہ کے قبضے میں تھی، زید کی والدہ نے وفات سے پہلے اپنے حق سے دستبرداری کر لی تھی اور یہ کہا تھا کہ یہ بہو کے زیور کے ہمراہ بہو کو پہنچا دو ،والدہ کی وفات کے بعد سامان زید کی بہن کے پاس رہا۔ اب بہن بھائی اتفاق باہمی سے یہ سامان زید کی بیوی اور بچے کو دینا چاہتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زید کی وفات کے بعد جو سامان بیوی کا تھا وہ تو بیوی کا ہی ہے اور جو سامان زید کی ملکیت میں تھا اس میں زید کی بیوی کا آٹھواں حصہ تھا اور زید کی والدہ کا چھٹا حصہ تھا۔ اورباقی زید کے بیٹے کا تھا، زید کی والدہ کا چھٹا حصہ ان کی وفات کے بعد زید کے بہن بھائیوں کا بن گیا۔ لہذا مذکورہ صورت میں زید کی بہن یہ سارا سامان صدقہ نہیں کر سکتی ،زیادہ سے زیادہ اپنے حصے کو یا بھائی بھی رضامند ہو تو دونوں کے حصےکو صدقہ کر سکتی ہے۔۔ اور اگر بہن بھائی باہمی رضامندی سے یہ کل سامان زید کی بیوی اور بچے کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved