• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرگی کے دورے میں "طلاق” کہنا

استفتاء

مولانا صاحب میرے شوہر کو بچپن سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور یہ بیماری ابھی تک ہے اگر دوائی کھاتا ہے تو ٹھیک رہتا ہے اور جب کبھی دوائی بیچ میں رک جائے یا ختم ہو جائے تو طبیعت صحیح نہیں رتی ہے یعنی کہ گالیاں نکالتا ہے ہر کسی کو اور الٹی پلٹی باتیں کرتا ہے۔اور میری شادی کو تقریبا 11 ،12 سال ہوئے ہے ۔مولانا صاحب میں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہو ں کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو یہ بتادیں ۔

ایک دفعہ میرے شوہر کو غصہ آیا اور اس نے گالیاں بھی نکالی اور مجھے طلاق بھی کہہ دیا ۔میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ اس کا کیا ہو گا اور اس بات کو تقریبا 2سال ہو گئے ہیں۔ ایک دفعہ میں ٹی وی دیکھ رہی تھی اس میں طلاق کی ہی باتیں ہو رہی تھیں تو اس لیے میں پوچھ رہی ہوں کہ میں بھی اپنے مسئلے کا حل پوچھوں کہ میرے لیے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ۔

خاوند کا بیان:بیوی کی بیان کردہ بات میں نے جس وقت کہی تھی اس وقت میں اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا دورے میں تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کا جملہ اگر شوہر نے مرگی کے دورے کے وقت کہا ہے اور وہ واقعتا اپنے ہوش وحواس میں نہ تھا تو اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved