• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ميعاد سے پہلے مکان چھوڑنے پر بقیہ دنوں کے کرایہ کا حکم

استفتاء

ایک آدمی نے اپنا مکان کرایہ پر دیا اور جانبین میں یہ طے پایا کہ مکان خالی کرنے سے پہلے ایک ماہ پہلے بتایا جائے (یعنی اگر مالک مکان کرائے تو ایک ماہ پہلے بتائے اور اگر کرایہ دار مکان خالی کرے تو وہ بھی ایک ماہ پہلے بتائے گا )اب مسئلہ یہ ہے کہ کرایہ دار نے ایک ماہ پہلے نہیں بتایا اور مکان 8تاریخ کو خالی کردیا ۔کرایہ دار کا مہینہ 3تاریخ کو مکمل ہوتا ہے ،تقریبا 5دن اوپر ہوگئے ہیں ۔اب مالک مکان کے لئے اس ماہ کا کرایہ لینا کیسا ہے؟

وضاحت مطلوب:(۱)کرایہ کی کوئی مدت متعین تھی یا  مہینے کے اعتبار سے کرایہ مقرر تھا؟(۲)کرایہ دار نے مکان کیوں چھوڑا ،کسی عذر کی وجہ سے چھوڑا یا بغیر عذر کے چھوڑا؟

جواب وضاحت:(۱)مہینے کے اعتبار سے کرایہ مقرر تھا۔(۲)کوئی عذر بیان نہیں کیا ،بغیر عذر بیان کئے مکان چھوڑ کر چلا گیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذكوره صورت میں پورے مہینہ کا کرایہ لینا درست ہے ، لیکن اس مہینے میں وہ مکان نہ خود استعمال کرسکتا ہے اور نہ آگے کرایہ پر دے سکتا ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں چونکہ کرایہ کا معاملہ اس طرح طے ہوا تھا کہ ہر مہینے کا اتنا کرایہ ہوگا لیکن کل مدت طے نہ ہوئی تھی  اور اس طرح کرایہ کا معاملہ طے کرنے کی صورت میں جس بھی مہینے کے شروع میں دونوں میں سے کوئی معاملہ ختم نہ کرے تو اس مہینے کا اجارہ لازم ہوجاتا ہے اور اجارہ جب لازم ہوجائے تو کسی ایک فریق کو دوسرے کی رضامندی کے بغیر عذر نہ ہونے کی صورت میں اجارہ کو ختم کرنا جائز نہیں اس لئے مذکورہ صورت میں مکان والے کے لئے اس مہینے کا کرایہ لینا درست ہے ۔

شامی  (64/7)میں ہے:قوله ( كإجارة ) صورته آجرتك داري كل شهر بكذا صح في شهر واحد وكل شهر سكن أوله لزمه.البحر الرائق (476/5)میں ہے:إذا قال أجرتك داري كل شهر بكذا وكل شهر سكن أوله لزمه.امداد الفتاوی (413/7)میں ہے:سوال (۱۹۷۲) :  کرایہ دار جو بنگلہ جات یادوکانات  یا مکانات کا کسی مالک مکان سے بشرط ایک سال یا چھ ماہ وعدہ کے کرایہ معینہ ماہوار شرح مقرر کر کے لیوے اور اندر میعاد معینہ کے مکان خالی کردے،تومالک مکان کو حق پہنچتا ہے کہ کرایہ میعاد مشروط اس سے وصول کرے؟

الجواب: یہ خالی کرنا اگر کسی عذر سے ہے تو کل کرایہ وصول نہ کیا جاوے گا، ورنہ وصول کیا جاوے گا، اس عذر کو بیان کرنا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved