- فتوی نمبر: 34-27
- تاریخ: 30 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > میاں بیوی کا طلاق میں اختلاف
استفتاء
ميرے شوہر پہلے دو طلاقیں دے چکے تھےاور پچھلے سال انہوں نے آخری طلاق کو معلق کیا تھا مگر میں نے اس شرط کا پاس رکھا تاکہ طلاق نہ ہو مگر کئی مہینوں سے مجھے شوہر بار بار طلاق کی دھمکیاں دے رہے تھے تو میں نے انکو کہا آپ اپنے ننھیال والوں کو بلائیں اب طلاق ایسے نہیں ہوگی سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ سعودیہ میں میرے ساتھ کیسے رہتے تھے اور الگ کمروں والی بات بتاؤں گی کہ کئی سالوں سے ہم دونوں کے کمرے الگ الگ تھے تو اس پر شوہر نے بولا کہ اگر تو نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی کیا تو اسی وقت سمجھ جانا کہ تجھے طلاق ہو چکی میں نے کہا دیکھ لیں آپ کیا کہہ رہے ہیں تو انہوں نے یہ جملہ دوبارہ بولا اس پر میں نے انکو کہا کہ آپ نے طلاق دوبارہ معلق کر دی ہے انہوں نے کہا ہاں یہی سمجھ لو میں نے معلق کردی ہے ۔ اس کے بعد میں نے ان کے ننھیال کی ایک خاتون کو کال کی اور ساری باتیں بتادیں کمرے والی بات بھی بتا دی۔مگر انکو نہیں پتہ تھا۔اسی دوران یہ ہماری پھوپی کے گھر گئے اور پھوپی کو بولا کہ” یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے”اب جب یہ سب ہوا تو میں نے عدت کی وجہ سے پردہ شروع کردیا تو یہ مکر گئے کہ میں نے کسی اور بات پر طلاق معلق کی تھی اور میں تو حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میری طرف سے طلاق نہیں ہوئی۔
مفتی صاحب میں دو دفعہ ڈپریشن میں جا چکی ہوں اور 14 سال میں ہر چھوٹی بات پر طلاق کی دھمکیاں دی ہیں اور مجھے معلق کیا ہوا تھا، میرا کمرہ الگ کیا ہوا تھا الگ کھانا الگ سونا مجھے طرح طرح سے تنگ کیا ہوا تھا۔میرے 4 بچے ہیں مگر سب کو شوہر نے رکھ لیا ہے ۔اب میں والد کے گھر آچکی ہوں ۔
اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں اگر انہوں نے حلف اٹھایاکہ طلاق نہیں ہوئی اور میں نے بھی اٹھایا اپنی بات پرکہ ہوگئی ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا انکے نہ ماننے سے طلاق واقع نہیں ہوگی؟
شوہر کا بیان:
میں نے بیوی کو پہلے کہا تھا کہ اگر “تم نے میرے مرض (مجھے پچھلے سال اٹیک ہوا تھا) کے متعلق کسی کو بتایا تو تم اپنے حق میں طلاق سمجھ لو” یہ بات انہوں نے بتا دی اس پر میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن سے فتوی لیا تو اس فتوے کے مطابق اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی اس کے بعد کا جو جملہ وہ بتا رہی ہیں یہ غلط بیانی ہے میں نے پھوپھی کو یہ کہا تھا کہ میں نے اس کو طلاق دینی ہے آپ سب کو بلالیں یہ نہیں کہا تھا کہ “میں نے اس کو طلاق دیدی ہے” میں اب حلف اٹھانے کے لیے تیار ہوں میرے چار بچے ہیں میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتا۔
بیوی کا بیان:
پہلی طلاق واٹس ایپ پر میسج لکھ کر بھیجا کہ” ایک ہو گئی ہے”میں نے پوچھا کیا؟ تو میرے شوہر نے کہا کہ “طلاق”پھر اس کے ایک مہینے بعد انہوں نے رجوع کر لیا پھر اس کے بعد ہماری لڑائی ہوگئی تو اس دوران میں اپنے والد کے ساتھ جا رہی تھی انہوں نے کہا کہ اگر تم بچوں کو چھوڑ کر جا رہی ہو تو” تمہیں طلاق ہے” تو میں بچوں کو چھوڑ کر چلے گئی پھر اس کے پانچ دن بعد دوبارہ رجوع کر لیا تھا۔
پھر اب میرے والد میری پھوپھی سے فون پر بات کر رہے تھے،اس دوران میرے شوہر آئے اور میری پھوپھی سے یہ الفاظ کہے کہ “یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے میں شام تک پیپر بنوادوں گا “یہ الفاظ میرے والد نے فون پر بھی سنے یہ الفاظ میں نے خود تو نہیں سنے البتہ مجھے میری پھوپھی اور والد نے بتایا کہ آپ کے شوہر نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ” میرا آخری فیصلہ ہے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے “
پھوپھی کا بیان:
میں اپنے بھائی (لڑکی کے والد)سے فون پر بات کر رہی تھی کہ اس دوران میری بھتیجی کا شوہر آیا اور کہا کہ “یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے میں شام تک پیپر بنوا دوں گا”
لڑکی کے والد کا بیان:
میں اپنی بہن (لڑکی کی پھوپھی) سے فون پر بات کر رہا تھا تو یہ اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ “یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے میں شام تک پیپر بنوا دوں گا “اس دوران فون چل رہا تھا میں نے فون پر یہ الفاظ خود سنے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر بیوی کو اپنے والد اور اپنی پھوپھی کی کہی ہوئی بات پر تسلی ہے کہ وہ صحیح ہے تو بیوی اپنے حق میں طلاق سمجھنے کی پابند ہے اور چونکہ دو طلاقیں پہلے بھی ہو چکی ہیں اس لیے اس آخری طلاق سمیت کل تین طلاقیں ہوگئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے لہذا بیوی کے لیے اب رجوع یا صلح کی گنجائش نہیں۔
شامی (4/449) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه
شامی (5/60) میں ہے:
وفي الفتاوى السراجية: إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج ولم يقيده بالديانة اهـ كذا في شرح الوهبانية.
قلت: هذا تأييد لقول الأئمة المذكورين: فإنه إذا حل لها التزوج بإخبار ثقة فيحل لها التحليل هنا بالأولى إذا سمعت الطلاق، أو شهد به عدلان عندها، بل صرحوا بأن لها التزوج إذا أتاها كتاب منه بطلاقها ولو على يد غير ثقة إن غلب على ظنها أنه حق.
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved