- فتوی نمبر: 34-104
- تاریخ: 20 اکتوبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > میاں بیوی کا طلاق میں اختلاف
استفتاء
میرا ذاتی معاملہ ہے فیملی کورٹ میں اور میرے شوہر نے تین دسمبر، چھ جنوری اور تیس جنوری کو مجھ سے یہ الفاظ کہے کہ میں نے تمہیں طلاق دی اور تم میری طرف سے فارغ ہو اور اس سارے عرصے میں ، میں پاک تھی۔
بیوی کا بیان :
میرے شوہر نے کورٹ میں مجھے تین انگلیوں سے اشارہ کیا اور آہستہ سے کہا کہ” میں نے تمہیں طلاق دی ہوئی ہے، تم مجھ سے فارغ ہو تم مجھ پر طلاق ہو” اس نے دوسرا نکاح بھی کیا ہوا ہے اور باہر لوگوں کو بھی کہا ہوا ہے کہ میں نے اسے طلاق دی ہوئی ہے میرے خیال میں یہ شخص مرتد ہو چکا ہے کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ اگر میں دوسرا نکاح کروں تو میں مرتد ہوں گا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی حق مہر دیا ہے بلکہ حق مہر کے سلسلے میں میرا کیس عدالت میں چل رہا ہے اور عدالت میں پیشی کے دوران ہی اس نے مجھے مذکورہ بالا الفاظ کہے تھے اور جس مدرسے میں اس نے پڑھا ہے جب میں نے ان کو اس کے متعلق بتایا کہ یہ کیسا آدمی ہے تو انہوں نے اس کی دستار بندی بھی کینسل کر دی۔
شوہر کا بیان :
واللہ ،باللہ، تاللہ میں نے نہ اس کو طلاق دی ہے اور نہ ہی دینے کا ارادہ ہے بلکہ میں نے تو اسے آٹھ تولے سونا مہر بھی دیا ہے اور ابھی تین مرلے کا گھر بھی دینے کا ارادہ ہے یہ بہت جھوٹی اور مکار عورت ہے اس نے دوسری جگہ چکر چلایا ہوا ہے اور میں اسے بھی جانتا ہوں لیکن میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ میں تمہیں ذلیل کروں گا طلاق نہیں دوں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً بیوی اپنے بیان میں سچی ہے تو بیوی کے حق میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے تاہم اگر میاں بیوی اکھٹے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔
توجیہ : طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر وہ شوہر سے طلاق کے الفاظ خود سن لے یا اسے معتبر ذرائع سے شوہر کا طلاق دینا معلوم ہو جائے تو اس پر اپنے علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر طلاق دینے کا انکاری ہے لیکن بقول بیوی کے اس نے طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں اور اس پر وہ حلف دینے پر بھی تیار ہے لہذا وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے۔مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق جب شوہر نے پہلی مرتبہ طلاق کا جملہ بولا ” میں نے تمہیں طلاق دی ہوئی ہے” یہ طلاق کا اقرار ہے لہٰذا اگر شوہر نے واقعی پہلے کوئی طلاق دی ہوئی تھی تو اس سے نئی طلاق واقع نہیں ہو گی ( سابقہ واقع ہو گی جس کا یہ اقرار ہے) اور اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی اور اس اقرار سے مقصد جھوٹ بولنا یا مذاق کرنا ہے تو اس سے بھی بیوی کے حق میں ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی کیونکہ طلاق کا جھوٹا اقرار کرنے سے بھی قضاءً طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ پھر جب دوسری مرتبہ شوہر نے یہ کہا کہ” تم مجھ سے فارغ ہو” اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی بلکہ سابقہ رجعی بائنہ ہوگئی کیونکہ طلاق رجعی کے بعد کنائی الفاظ بولنے سے طلاق کے عدد میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وصف میں اضافہ ہوتا ہے پھر اس کے بعد شوہر کا یہ کہنا کہ” تم مجھ پر طلاق ہو” اس سے دوسری بائنہ طلاق واقع ہو گئی کیونکہ طلاق بائنہ کے بعد صریح الفاظ سے طلاق دینے سے بھی طلاق بائنہ ہی واقع ہوتی ہے اور طلاق بائنہ سے سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے لہٰذا اگر میاں بیوی اکھٹے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔
نوٹ: دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو ایک طلاق کا حق حاصل ہو گا۔
فتاوی شامی (449/4) میں ہے:
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه.
در مختار مع رد المحتار (509/4) میں ہے:
فروع) كرر لفظ الطلاق وقع الكل
قوله: (كرر لفظ الطلاق بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قدطلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق.
البحر الرائق (3/533) میں ہے:
وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة
فتاویٰ بزازیہ علی ہامش الہندیہ (4/180) میں ہے:
طلقها ثم قال: طلقتك او قال: طلاق دادم ترا يقع أخرى ولو قال:طلاق داده ام أو كنت طلقتك لا يقع أخرى لانه اخبار
البحر الرائق (3/264) میں ہے:
ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.
وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء
در مختار (5/42) میں ہے:
وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع
بدائع الصنائع(3/187) میں ہے:
فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد
خلاصۃ الفتاویٰ (2/82) میں ہے:
فلو قال لإمرأته أنت طالق ثم قال للناس: “زن من بر من حرام است” وعنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعى بائنا وان عنى به الابتداء فهى طالق آخر بائن.
امداد المفتین (ص: 521) میں ہے:
’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’میں نے اور میرے والدین نے تمہیں گھر آباد کرنے کی جدوجہد کی، لیکن سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں،اس واسطے تنگ آکر تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا، میں یہ طلاقنامہ تم کو تمہارے والد کی وساطت سے بھیجتا ہوں‘‘ اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟
الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے، صورت مذکورہ میں کنایہ کے دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں، اول ’’میرا تم سے کچھ تعلق نہیں‘‘ دوسرے ’’تم اس خط کو سن کر اپنے کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا‘‘ یہ دونوں لفظ کنایات بوائن میں سے ہیں……………الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔
لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2) و فى الكنز أنت طالق بائن إلى قوله فهي واحدة بائنة و فى فتح القدير قيد بكون البائن صفة بلا عطف لأنه لو قال أنت طالق و بائن أو قال أنت طالق ثم بائن و قال لم أنو بقولى بائن شيئا فهى رجعية و لو ذكر بحرف الفاء و الباقى بحاله فهى بائنة كذا فى الذخيرة ( بحر جلد3، صفحه 500)
عبارات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جب عبارت میں کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ الفاظ کنایہ طلاق سابق کا بیان یا تفسیر و تفریع ہیں تو ایک طلاق بائنہ بلا احتیاج الی النیۃ واقع ہو جائے گی جیسا کہ بائن کے حکم سے ظاہر ہوا بحوالہ فتح القدیر، اور اسی طرح جب کہ متکلم ان لفظوں سے طلاق اول کے بیان کی نیت کرے طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اگرچہ لفظوں میں کوئی حرف تفریع وغیرہ موجود نہ ہو كما ظهر من عبارة الخلاصة و قال فى البحر كل كناية قرنت بطالق يجرى فيها ذلك (بحر صفحه 501 جلد 3) …………… ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ (میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے…..الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved